گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
کروں ؟ جیسے ہی اس طالب علم نے سوال کیا تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی کو اپنے والد صاحب کے بارے میں خیال آیا کہ انہوں نے تو یکے بعد دیگرے چار شادیاں کی تھیں ۔ اور سوچنے لگ گئے کہ حق مہر دینے کا رواج تو ان کے والد کے ہاں بھی نہیں تھا۔حضرت رحمہ اللہ تعالی نے اس طالب علم کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے تو میری ایک ایسے مسئلے کی طرف یاد دہانی کروادی جو کہ مجھے یاد ہی نہیں تھا۔اس کے بعد حضرت نے مختلف علماء کو خطوط لکھے اور مسئلہ کی تفصیل دریافت کی کہ میں کیا کروں ؟ خود فتویٰ نہیں دیا حالاں کہ بہت بڑے فقیہ تھے، مگر اپنے معاملے کے متعلق دوسروں سے سوال دریافت کیا۔ مفتیان کرام نے جواب دیا کہ وہ تو آپ کے والد پر تھا، آپ پر تو اد اکرنا نہیں ہے۔ مگر حضرت نے احتیاط کی کہ یہ تو میرے والد پر قرض تھا، مجھے ادا کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ حق کی ادائیگی کی۔ لوگ چوں کہ مختلف ملکوں میں چلے گئے تھے تو دوسال صرف اس تحقیق میں گزرگئے کہ کس کا کتنا حق بنتا ہے اور کتنے حقوق ہیں ۔ رشتے داروں کو خطوط بھیج بھیج کر انہوں نے تفتیش کروائی اور ایک اہلِ علم کو اپنے ساتھ رکھا کہ جس کو مختلف سفروں میں بھیجنے کا اہتمام فرمایا۔ اسے بھی پیسے دے کر کام کروایا کرتے تھے۔ جب انتہائی محنت کے بعد سب رشتہ داروں کے نام سامنے آگئے تو ان کو حصہ دینے کی Calculation مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے کی۔ کسی کے حصے میں ایک ایک آنہ آیا، کسی کے حصے میں ایک پیسہ آیا، لیکن انہوں نے دوسرے ممالک تک بھی پہنچا کر لوگوں کو ان کے حصے دیے۔ اور لوگوں کے حصے دینے بعد فرمایا کرتے تھے کہ چاہے میرے اوپر جتنی مرضی بڑی Amount ہو، میں اسے ادا کروں گا۔ ان کے والد صاحب نے چاروں ازواج کے جو _