احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کاملہ کی تبلیغ کی کہ تمام قوموں کے حالت اور تمام زمانوں کے لحاظ سے وہ حقیقی طور پر مکمل اور کافی ہیں۔ اب قیامت تک نہ ان کی تنسیخ ہوسکتی ہے نہ ترمیم۔ پس ایسے پیغمبر کے بعد کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت کہاں باقی رہی جو حضرات چاہتے ہیں کہ قادیانی رسول کو شریک فی النبوۃ قرار دے کر ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کی ختم نبوت کو توڑ دیا جائے۔ یاد رہے کہ ایک چیز جب تک اپنے حقیقی کمال کو نہ پہنچے وہ من جمیع الوجوہ کامل نہیں اور ایک چیز جب کمال کو پہنچ جائے۔ مگر اس میں پھر نقص پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو پھر وہ کمال کی محتاج ہوگی۔ اس لئے جب تک یہ دونوں صورتیں جمع نہ ہوں ختم نبوۃ کا منشاء پورا نہیں ہوسکتا۔ مگر وہ خدا جس نے شروع سے حضور ختمی نبوت کے ذریعہ سے نبوت کو اس کے کمال تک پہنچانے کا ارادہ فرمایا تھا اور پھر اس کمال کو قائم رکھنا چاہا تھا۔ تاکہ اس کامل انسان کے بعد سب اسی کی شاگردی میں زانو تہہ کریں۔ اس نے نہ چاہا کہ ایک پہلو سے ختم نبوت کر کے دوسرے پہلو کو یوں ہی چھوڑ دے اور نبوت کی ضرورت جیسی کہ دیسی باقی رہے۔ بلکہ اس نے ختم نبوت کو خوب پختہ کیا اور اس میں کسی قسم کے نقصان کا احتمال باقی نہ چھوڑا۔ جب ہر طرح سے اس کی تکمیل فرمادی تو پھر اس کے سلسلہ کو بند کردیا۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ قرآن مجید نے جملہ ضروریات کے اصول کو پورا کردیا۔ اس کا ایک ایک لفظ ہدایت ہے۔ ’’ذالک الکتاب لا ریب فیہ ہدیً للمتقین‘‘ اس نے ہر پہلو سے تزکیہ نفس تصفیہ قلب اور تکمیل روح فرمادی ہے۔ اس لئے آئندہ نہ ضرورت کسی اور نبی کی ہے اور نہ کسی کتاب کی۔ یہ سچ ہے کہ لفظ خاتم کے معنی مہر کے بھی ہیں اور خاتم کے بھی اس لئے اس کی دوسری قرأت خاتم بھی آئی ہے۔ جس سے غرض بھی ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے کام بند کر دئیے گئے اور معلوم ہے کہ مہر ہر چیز کے آخر میں ہوتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیز موثق بھی ہے اور آخر بھی ہوگئی ہے۔ اب سب کام قیامت تک آپ ہی کے افاضۂ کمال سے ہوا کریںگے۔ اس لئے خداتعالیٰ کی پرحکمت کلام نے ایک ایسا عجیب اور جامع لفظ اختیار کیا۔ جس میں دونوں امر مضمر ہیں۔ آپ تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔ یعنی ان کی تصدیق کرنے والے اور ان کی تعداد کی زیادتی اور ان کے کاموں کو بند کرنے والے۔ یعنی اب جو کام ہدایت کا ہوگا۔ وہ ہمیشہ آپؐ کے افاضۂ کمال سے ہوتا رہے گا اور آپ ابنیاء کے خاتم ہیں۔ یعنی آپؐ کے زمانہ میں اور آپؐ کے بعد قیامت تک