احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
فیما یری) فہو موجود فی الائمۃ بعدہ فذلک الزندیق۰ وقد اتفق جماھیر المتأحزین من الحنفیہ والشافعیہ علی قتل من یجری مجری ہذالباب‘‘ {دین حق کا مخالف اگر سرے سے اس کا معتقد اور مقر ہی نہیں نہ ظاہراً نہ باطناً تو وہ کافر ہے اور اگر زبان سے اعتراف کرے مگر دل میں کفر بھرا ہوا ہو تو یہ منافق ہے اور اگر بظاہر دین حق کا اعتراف کرے۔ مگر بعض ضروریات دین کی ایسی من مانی تاویل کرے جو صحابہ، تابعین، اجماع امت کے سراسر خلاف ہو۔ (جیسے مرزامحمود کا ترجمہ ختم نبوت) تو ایسا شخص شریعت میں زندیق ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ قرآن حق، جنت وجہنم حق۔ لیکن جنت کے معنی فقط اس قدر ہیں کہ انسان کو اچھے اخلاق سے اس عالم میں گونہ سرور حاصل ہوگا اور جہنم سے مراد یہ ہے کہ بداخلاق کو وہاں گونہ ندامت ہوگی۔ فی الواقع کوئی جنت جہنم نہیں۔ ایسا شخص زندیق ہے۔ غرض زندیق سب کچھ مان کر سب پر پانی پھیر دیتا ہے۔ یہ زندقہ اس میں دین کی صورت برحال رہتی ہے اور حقیقت مسخ ہو جاتی ہے۔ یہ مرتد سے کئی گنا بدتر ہے۔ واضح رہے کہ تاویل دو قسم ہے۔ (۱)جو کسی نص قطعی اور حدیث صحیح اور اجماع امت کے مخالف نہ ہو۔ (۲)جو کسی نص سے ٹکرائے۔ ثانی الذکر زندقہ ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ بیشک آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد نبی کہلانا منع ہے۔ رہا نبوت کا مفہوم (یہی ایسا انسان جو خداتعالیٰ کی طرف سے خلق خدا کو ہدایت کرنے آئے۔ واجب الاطاعۃ ہو۔ گناہوں سے معصوم اور غلطیوں سے مبرا ہو) سو یہ آپ کے بعد ائمہ دین میں موجود ہے۔ پس ایسا شخص زندیق ہے۔ جمہور فقہاء حنفیہ اور شافعیہ کا اتفاق ہے کہ زندیق واجب القتل ہے۔} توبہ زندیق زندیق اور مرتد کی حقیقت میں فرق واضح ہوچکا ہے۔ اس کے بعد احکام کا درجہ ہے۔ مرتد اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ منظور کر لی جائے گی۔ لیکن زندیق کی توبہ کا اعتبار کریں تو کیونکر کریں۔ اس لئے کہ اس کے باطن میں خبث پوشیدہ ہے۔ توبہ سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی (احکام القرآن ج۱ ص۵۳) میں اور حافظ امام بدر الدین عینی حنفی (عمدۃ القاری ج۱ ص۲۱۳) میں لکھتے ہیں۔ ۱… ’’قال ابویوسف قال ابوحنیفۃ اقتلوا الزندیق سراً فان توبتہ لا تعرف‘‘ {امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ زندیق کو جس طرح بن پڑے قتل کر دو۔ اس لئے کہ اس کی توبہ کا پتہ لگانا دشوار ہے۔}