احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نماز نہ پڑھے۔ ان کے معصوم بچوں تک کی نماز جنازہ نہ ادا کرے۔ غرض متارکۃ المسلمین کی تعلیم میں آپ نے ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا۔ جس پر ہر ایک مرزائی عام اس سے کہ لاہوری ہو یا قادیانی پوری پابندی سے اب تک عامل ہے۔ اس وقت جب کہ اقوام کی مسابقت کا بازار گرم ہے اور ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے خیال سے شب وروز سعی پیہم میں منہمک ہے۔ فرقہ مرزائیہ کی حالت ایسے ہے جیسے ’’از حرم راندہ، واز دیر ماندہ‘‘ سیاسیات ہند کا مستقبل کچھ اس طرح ہوشربا واقع ہوا ہے کہ ہندو اپنی کثرت ودولت اور ادعائے علم کے باوجود مسلم کی اسلامیت اور اس کے شاندار تبلیغی مستقبل سے لرزہ براندام ہے۔ جس کی کڑیاں اور دشوار گرہیں خود بخود یکے بعد دیگرے کھلتی جارہی ہیں۔ مسلمان جو ہندوستان میں گوآٹھ کروڑ ہے۔ مگر ہندو کا ۴/۱ حصہ ہے۔ پھر سود درسود کے شکنجہ میں بری طرح کسا ہوا ہے۔ اپنے مستقبل کے مطالعہ میں الگ مستغرق وپریشان ہے۔ سکھ، جدا حیران ہے۔ گاندھی جی اس غم میں گھلے جارہے ہیں کہ اگر اچھوت ہاتھ سے نکل گئے تو ہندو دھرم ہمیشہ کے لئے فنا ہو جائے گا۔ اسی پر دوسرے زعماء کو بھی قیاس کیجئے۔ ان حالات میں اگر مرزائی تصویر حیرت بنے لندن کے چوراہے کی خاک، شملہ کے خنک پانی میں حل کر کے سرمہ چشم بنائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہی سراسیمگی تھی۔ جس کے پیش نظر چوہدری ظفر اﷲ خان نے گول میز کانفرنس کے تیسرے اجلاس (منعقدہ لندن دسمبر۱۹۳۲ئ) میں لندن کے چوراہے میں اپنی قادیانیت نوازی اور مسلمانوں کی مزعومہ حمایت کا بھانڈا یوں پھوڑا اس اجلاس کی مطبوعہ روداد کے ص۳۶ پر یہ تصریحات مندرج ہیں۔ ’’ویسرائے کو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا اختیار خاص حاصل ہوگا۔‘‘ یعنی اگر ہندوؤں کے مقابلہ میں جو تین چوتھائی اکثریت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی کوئی حق تلفی ہو جو ہندوستان کی آبادی کا ایک چوتھائی ہیں تو ویسرائے اس حق تلفی کا ازالہ اپنے اختیارات خاص سے کر دیں۔ چوہدری ظفر اﷲ خان کی رگ قادیانیت اس شق پر بحث کرتے ہوئے پھڑک اٹھی اور آپ نے فرمایا کہ شق مذکور کے الفاظ میں یہ ترمیم ہونی چاہئے کہ محض اقلیتوں کے تحفظ سے کام نہیں چلتا۔ بلکہ وایسرائے کو یہ اختیار ازروئے آئین حاصل ہونا چاہئے کہ رعایا کے کسی طبقہ کے مفاد کو گزند پہنچے تو وایسرائے مداخلت کر کے اپنے اختیارات خصوصی سے اس کی روک تھام کر سکیں۔ یعنی قادیانیوں کے تحفظ خصوصی کے سامان بھی مہیا ہونے چاہئیں۔ تاکہ وہ علی الاعلان مسلمانوں کو ذریتہ البغایا کافر کہتے رہیں اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مغلظات سناتے رہیں۔