احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
۳۰…حضرت موسیٰ کی اتباع سے ان کی امت میں ہزاروں نبی ہوئے۔ (الحکم ص۵، مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ئ) ۳۰…بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے۔ مگر ان کی نبوت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ (حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) ۳۱…خداتعالیٰ کا قانون قدرت ہرگز بدل نہیں سکتا۔ (کرامات الصادقین ص۸، خزائن ج۷ ص۵۰) ۳۱…خدا اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل دیتا ہے۔ (چشمۂ معرفت ص۹۶، خزائن ج۲۳ ص۱۰۴) ۳۲… خداتعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا۔ (ازالہ اوہام ص۳۱۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۶۰) ۳۲…’’واعطیت صفۃ الافناء والاحیاء من الرب الفعال‘‘ اور مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے اور یہ صفت خدا کی طرف سے مجھ کو ملی ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۶) ۳۳…بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت عبرانی وغیرہ۔ (نزول مسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵) ۳۳…یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔ جو انسانی سمجھ سے بالا تر ہے۔ (چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸) ۳۴…ایک طرف تو مسیح اور علماء اسلام کو بے نقط گالیاں۔ (تطبیق علامت ص۱۱) ۳۴…دوسری طرف یہ فرماتے ہیں۔ ’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۵) متضاد اور متناقض باتیں کہنے والوں کو خود مرزاپاگل اور مخبوط الحواس کہتے ہیں۔ ۱… ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نکل نہیں سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳) ۲… اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱) ۳… کوئی دانش مند اور قائم الحواس آدمی ایسے دو متضاد اعتقاد ہر گز نہیں رکھ سکتا۔ (ازالہ اوہام ص۲۳۹، خزائن ج۳ ص۲۲۰) ۴… جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵) ۵… ’’قل لوکان الامر من عند غیر اﷲ لوجدتم فیہ اختلافاً کثیراً‘‘ کہہ دو اے مرزاقادیانی اگر یہ کاروبار اﷲتعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (البشریٰ ج۲ ص۲۰)