ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
تھوڑا ہی ہے لیکن یہ جواب حالی تھا یعنی خاص اس کی حالت کے مناسب تھا جیسے طبیب بعض اوقات خلاف قواعد کسی خاص مزاج کے اعتبار سے کچھ علاج کرتا ہے اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ اس راہ میں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو جامع بین الاضداد ہو جو سب کی رعایت کر سکے اور وہ اضداد محض صورتا ہوتے ہیں حقیقتا نہیں ہوتے اور ایسا جمع سخت نازک کام ہے ۔ علماء ظاہر کے لیے تو یہ آسانی ہے کہ وہ ظاہر پر اور قاعدہ پر فتوی دے کر الگ ہو جاتے ہیں اور غیر عالم کو یہ آسانی ہے کہ اس کو حدود پر نظر ہی نہیں اپنے ذوق پر حکم لگایا ، مشکل غریب جامع ظاہر و باطن کی ہے کہ اس کو دونوں متضاد کو جمع کر کے فتوی دینا پڑتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ہے بدون رہبر کامل کے اس طریق میں قدم نہ رکھنا چاہیے اور اگر اس پر کسی کو شبہ ہو کہ ہم نے تو اس قسم کی بہت حکایت سنی ہیں کہ بہت لوگ بدون رہبر کے اس راہ کو طے کر گئے اور منزل مقصود پر پہنچ گئے تو صاحبو ! ایسا اول تو نادر ہے اور نادر قابل اعتبار نہیں پھر وہ نادر بھی کسی راہبر کی عنایت اور توجہ ہی کا ثمرہ ہوتا ہے اس لیے کہ وہ غیبت میں مخلوق کے لیے دعا کیا کرتے ہیں جس کی اس شخص کو خبر بھی نہیں تو اب بتلائیے اہل اللہ کی عنایت سے کوئی مستغنی کب ہوا اور میں تو اس باب میں ایسے محقق مسلم شخص کا فیصلہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس کے سن لینے کے بعد آپ کو کوئی شبہ ہی نہیں رہ سکتا ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں : بے عنایات حق و خاصان حق گر ملک باشد سیہ ہستش ورق اور تنہا راہ کو طے کرنے کے متعلق بھی انہیں کا فیصلہ پیش کرتا ہوں ۔ فرماتے ہیں : یار باید راہ را تنہا مرو بے قلاؤز اندریں صحرا مرو کہ اس بیابان میں بدون رہبر کامل کے قدم نہ رکھو جس طرح بھی ممکن ہو ضرور کسی کو ساتھ لے لو اس لیے کہ وہ تم کو اس راہ پر خطرے اور دشوار گھاٹی سے حفاظت کے ساتھ نکال دے گا اور یہ سب ہائیکورٹ کے نظائر ہیں جس کے بعد کوئی شبہ ہی نہیں رہ سکتا ۔ فرماتے ہیں : ہر کہ تنہا نادر ایں راہ را برید ہم بعون ہمت مرداں رسید اور ایک دوسرے اہل تجربہ حضرت شیخ فرید شکر گنج فرماتے ہیں : بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق عمر بگذاشت و نشد آگاہ عشق