ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
بڑ گیا اس پر حضرت والا نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیسی بے تکلف زبان ہے کیا پیارا معلوم ہوتا ہے اور مفہوم کو کتنا صاف ادا کر دیا اور اس متعارف مدح اور تعظیم کیلئے مولانا فرماتے ہیں : تن قفس شکل ست اماخارجاں از فریب داخلان و خارجان اینت گوید نے منم انباز تو آنت گوید نے منم ہمراز تو اوچوبیند خلق راسر مست خویش از تکبر میرود از دست خویش ( انسان کا بدن پنجرے کی طرح ہے ( جس میں روح بند ہے ) لیکن بعض اوقات اپنوں اور غیروں کے فریب میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے یہ بدن روح کے لیے مثل کانٹے کے ہو جاتا ہے ، کوئی کہتا ہے کہ بھلا میں آپ کی برابری کہاں کر سکتا ہوں ، کوئی کہتا ہے کہ میں آپ کا ہمراز بننے کی کہاں قابلیت رکھتا ہوں ( ان لوگوں کی ان خوشامدانہ باتوں اور حرکتوں کو کانوں سے سنتا اور آنکھوں سے دیکھتا ہے اور کان بدن ہی کے اجزاء ہیں ) یہ سننے والا اور دیکھنے والا جب مخلوق کو اپنا معتقد دیکھتا ہے تو تکبر کی وجہ سے آپے سے باہر ہو جاتا ہے ( یہی چیز روح کے لیے کانٹا ہو جاتی ہے ) ۔ افسوس میں تمہیں سنواروں اور تم تعظیم کر کر کے مجھے بگاڑو ۔ اسی طرح ہدایہ کے لیے بھی یہ ہی ہونا چاہیے کہ کبھی لے آئے کبھی نہیں ، مداوت سے طبعا امید کی نظر ہو جاتی ہے جو ایک قسم کی طمع ہے ۔ سو میں تو تمہاری طمع کا علاج کروں اور تم میری طمع کو بڑھاؤ اور حضرت میں اسی اصلاح کے لیے قواعد بنانے پر مجبور ہوا اور بدنامی اصلاح کے لیے لازم ہے جس کو گوارا کرنا چاہیے ۔ اسی کو فرماتے ہیں : گرچہ بدنامی ست نزد عاقلاں مانمی خواہیم ننگ و نام را اور وہ قواعد واقع میں سخت نہیں مگر احتساب کے وقت لہجہ تو تیز ہو ہی جاتا ہے تادیب کے وقت غلامی کا لہجہ تو ہو نہیں سکتا لہجہ سے قواعد کی سختی کا جاہل کو شبہ ہو جاتا ہے ۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت بعض لوگ نووارد قواعد سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہاں کے جو لوگ رہنے والے ہوں ان سے وہاں کے قواعد اور آداب معلوم کر لیے جائیں جیسے کچہری میں جاکر قوانین معلوم کرتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایک تو ہے بے فکری اور ایک ہے فکر جو غلطی بے فکری سے ہوتی ہے وہ ناگوار ہوتی ہے ۔ اس پر