ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
امراء تو جنتی اور فقراء دوزخی ہیں کیونکہ امراء تو فقرا سے تعلق رکھتے ہیں اللہ کے واسطے اور طالب حق جنتی اور فقراء تعلق رکھتے ہیں امراء سے دنیا کے واسطے اور طالب دنیا دوزخی ہیں ۔ جب حیدر آباد گیا تھا تو واپسی کے روز میں چارپائی پر پیر لٹکائے اسباب بندھوا رہا اور جمع کرا رہا تھا ۔ ایک صاحب آئے اور میرے پیروں کی طرف ہاتھ بڑھائے ، میں نے کہا ذرا ٹھرئیے میں اچھی طرح بیٹھ جاؤں وہ ٹھر گئے میں نے پہلے پیروں کو اٹھا کر چارپائی پر اس طرح سمیٹ لیا کہ پاؤں چھپ گئے ، بس وہ عاجز رہ گئے ۔ وہاں کی تہذیب کی یہ حالت ہے میرے یہاں تو اصلاح کا پہلا قدم یہ ہے کہ بد تہذیب ہو جاؤ یعنی ان کی اصلاح کی تہذیب کے مقابلے میں ان خرافات اور تکلفات کو پسند نہیں کرتا نہ اپنے بزرگوں کو ایسی باتیں پسند کرتے دیکھا ، میں ایک غریب طالب علم ہوں ، محبت کا برتاؤ رکھنا چاہیے ۔ ان رسمی حرکات سے مجھ کو سخت نفرت ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر جان دینے کو تیار مگر بے تکلف اس ڈھونگ بنانے میں کیا رکھا ہے ، دوستوں میں ملے جلے رہنا چاہیے ۔ صاحب آخر میں بھی بشر ہوں یہ کون سی دوستی ہے کہ میرے نفس کو فرعون بنایا جائے کیا مجھ پر ہی آپ لوگوں کا حق ہے میرا حق آپ پر نہیں ، نفس پر کسی وقت بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے اس کی ہر وقت حفاظت کی ضرورت ہے ۔ اسی کو فرماتے ہیں : نفس از بس مدحہا فرعون شد کن ذلیل النفس ہونا لا تسد میں بقسم عرض کرتا ہوں کہ مجھ کو ان بناوٹی باتوں اور تکلفات کی حرکات سے سخت اذیت پہنچتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنا رہے ہیں میں دل چیر کر کس طرح دکھلاؤں اگر ایسی تعظیمات کو گوارا کر لیا جاوے پھر نفس کو یہی عادت ہو جاتی ہے ۔ مجھ کو یاد ہے جب میں کان پور سے آیا وہاں کے تکلفات کا یہ اثر تھا کہ تم کا لفظ بھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے پتھر مار دیا اور اب تو کے لفظ میں لذت معلوم ہوتی ہے ، بے تکلف باتیں جن میں کوئی تکلف نہ ہو ، سادگی ہو ، اچھی معلوم ہوتی ہیں اور ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جمعہ کے روز جب حضرت والا لوگوں سے بغیر مصافحہ کیے ہوئے سہ دری میں تشریف لا کر کسی ضرورت سے حجرہ میں تشریف لے گئے تو ایک گاؤں کا شخص اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ابے چل وہ تو حجرہ میں