ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
جس کے جی میں آتا ہے کہہ لیتا ہے ہمارے بزرگوں کا تو یہی طرز رہا ہے کہ اپنے کو مٹائے رہتے تھے ۔ ہم کو بھی وہی پسند ہے مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کا ایک واقعہ یاد آیا کسی سفر میں تشریف لے جا رہے تھے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ سر پر بہت سا بوجھ لادے جا رہا ہے فرمایا لاؤ بھائی میں لے لو تو بوڑھا ہے تھک گیا ہو گا اس نے کہا کہ بھائی تو بھی تو بوڑھا ہے مولانا نے فرمایا اول تو میں ایسا بوڑھا نہیں دوسرے ذرا تازہ دم ہوں وہ غریب پہچانتا نہ تھا آخر بوجھ دے دیا آپ نے اس کے گاؤں تک پہنچا دیا راستہ میں مختلف باتیں ہوئی باتوں باتوں میں اس شخص نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مولوی مظفر حسین صاحب اس طرف آئے ہوئے ہیں بھائی اگر تجھ کو خبر ہو مجھ کو بھی خبر کر دیجیو فرمایا کہ کر دوں گا جب رخصت ہونے لگے تب فرمایا بھائی مظفر حسین میں ہی ہوں وہ بے چارہ قدموں میں گر پڑا اور بے حد نادم ہوا آپ نے اس کی تسلی کی اور بات کو ختم کیا حضرت یہ سب عشق کے کرشمے ہیں کہ اس طرح مٹا دیتا ہے اور یہی حالت ہو جاتی ہے ۔ ایں چنیں شیخے گدائے کوبکو عشق آمد لا ابالی فاتقوا اور اس کی یہ کیفیت ہے فرماتے ہیں ۔ عشق آں شعلہ است کوچوں بر فروخت ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت یہ ان کی دیوانگی وہ دیوانگی ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد مرعسس راہ دید و درخانہ نہ شد ما اگر قلاش وما دیوانہ ایم مست آں ساقی و آں پیمانہ ایم اس مذاق کو دیوانگی کہا جاتا ہے مگر معلوم بھی ہے کہ ہزاروں ہوشیاریاں اس پر قربان ہیں نیز علاوہ عشق کے ایک بات یہ بھی ہے کہ اہل کمال کبھی ایسی چیزوں کی طرف نظر نہیں کرتے کہ اس میں ہماری سبکی ہو گی یا کیا ہو گا ان میں ایک استغنا کی شان ہوتی ہے کمال میں یہی خاصیت ہے یہ بادشاہ کو بھی منہ نہیں لگاتے آپ دیکھ لیجئے کیمیا گر کس حالت سے رہتا ہے نہ لباس درست نہ جسم صاف مگر بڑے بڑے والیان ملک کو موقع پر گدھا تک کہہ دیتا ہے یہ استغناء کس چیز کی بدولت ہے صرف کمال کی بدولت خوب کہا ہے ۔