ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
معنی ہیں با ادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب با ایمان آج کل کے بدعتی اکثر شریر ہوتے ہیں پہلے لوگوں میں یہ بات نہ تھی وجہ یہ کہ وہ اللہ اللہ کرنے والے ہوتے تھے اس کی برکت سے ان میں تدین تھا اور اب تو بکثرت فاسق فاجر ہوتے ہیں جن کو دین سے کوئی لگاؤ ہی نہیں ہوتا اور اس وقت یہی حالت غیر مقلدوں کی بھی ہے اور مزید برآں یہ کہ تہذیب سے بھی کورے ہوتے ہیں ایک صاحب کا یہاں پر اخبار آتا تھا اس میں کافر حکام و رؤساء کی مدح ہوتی تھی اور ماشاء اللہ اہل حدیث کہلاتے ہیں کفار کو اولی الامر منکم میں داخل لکھتے تھے کہاں تو یہ سوء ظن کہ بزرگان سلف کو بھی برا بھلا کہا جاتا ہے اور کہاں یہ حسن ظن کہ کفار کی مدح کی جاتی ہے یہ ان کا دین ہے بس اغراض نفسانی کو دین سمجھ رکھا ہے کہ ایسے لوگوں سے کچھ ملنے کی امید ہو گی ان کی ہی تعریف شروع کر دی میں نے لکھ دیا کہ تمہارے اخبار میں کفار کی مدح ہوتی ہے لہذا یہاں اخبار نہ بھیجا کرو ان ہی صاحب نے تفسیر بیان القرآن کے ایک مقام پر اعتراض کیا ہے نہایت ہی بد تہذیبی سے میں اس کی شکایت نہیں کرتا کہ اعتراض کیوں کیا کسی کی غلطیوں پر مطلع کرنا طاعت ہے مگر آدمیت تو ہو مگر ایسے لوگوں کو دین تھوڑا ہی مقصود ہے اور ایسے لوگ ان ہی سے باز آتے ہیں جو گنبد کی آواز ہیں کہ جیسی کہے ویسی سنے ، ہم کو غریب سمجھ کر ڈانٹ لیتے ہیں اس وقت طبائع کا یہی رنگ ہے کہ نرمی والوں کو ستاتے ہیں اور سختی والوں سے دبتے ہیں اس کی تائید میں ایک قصہ بیان فرمایا کہ ایک مولوی صاحب تھے دہلی کے وہ بیان کرتے تھے کہ میں ایک رئیس کے یہاں مہمان تھا شب کو بڑے استنجے کی ضرورت ہوئی اٹھ کر بیت الخلاء گیا وہاں سے نکلتے ہوئے سنتری نے ٹوکا کون اگر میں حضرات دیوبندیوں کا طرز اختیار کرتا کہ میں ہوں حقیر فقیر پرتقصیر تو اس وقت پٹتا تھا بعد میں خواہ کچھ ہی ہوتا اس لئے ہم نے کہا کہ ہم ہیں مولانا صاحب دہلی والے تو کیا بکتا ہے نالائق اس سنتری نے عرض کیا کہ حضور پہچانا نہیں تھا ہم نے کہا ہاں اندھا ہے سارے دن تو ہم کو دیکھا پھر بھی نہیں پہچانا صبح ہونے دے تب خبر لی جائے گی بس قدموں پر گر پڑا اور ٹھیک ہو گیا یہ تو بہادروں کا قصہ ہے مگر ہم سے تو ایسی بہادری ہو نہیں سکتی ہم تو حقیر فقیر پرتقصیر ہی ہیں جو