ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
حقوق تو بتلا دے اسی رعایت حقوق کی فرع ہے کہ جہاد میں بیٹے کو اجازت نہیں کہ وہ باپ کو قتل کرے اسلام نے اس کے حق کی کیسی رعایت رکھی حالانکہ عین قتال کے وقت غصہ ہوتا ہے مگر اس موقعہ پر حکم ہے کہ غصہ کو ضبط کرو ۔ اور باپ کو قتل نہ کرو اس لئے کہ وہ محسن ہے اس نے پرورش کیا ہے اگر یہ بھی نہ ہو تو تمہارے وجود کا سبب بنا ہے یہ رعایات اسلام کی خوبی ہے دوسرا کوئی شخص اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی زرہ چوری ہو گئی ایک روز حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک یہودی کے پاس زرہ دیکھی آپ نے اس کو شناخت کر لیا کہ یہ زرہ میری ہے اگر چاہتے تو آپ امیر المومنین تھے اس سے زرہ جبرا لیتے اس بے چارہ کا وجود ہی کیا تھا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا باقاعدہ قاضی شریح کے یہاں دعوے کیا یہ قاضی بھی ظاہر ہے کہ آپ ہی کے محکوم تھے قاضی نے شہادت طلب کی کہ آپ شہادت قائم کریں کہ یہ زرہ آپ کی ہے آپ نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کو اور ایک آزاد شدہ غلام قنبر کو شہادت کے لئے پیش کیا قاضی نے عرض کیا کہ غلام کی شہادت تو معتبر ہے مگر بیٹے کی شہادت باپ کے حق میں قبول نہیں اس میں حضرت اور قاضی شریح میں اختلاف تھا حضرت علی بیٹے کی شہادت کو جائز سمجھتے تھے قاضی اس کے خلاف تھا جب آپ اور کوئی شہادت پیش نہ فرما سکے قاضی نے آپ کے خلاف مقدمہ کر دیا اور وہ زرہ یہودی کو دلوا دی آپ وہاں سے نہایت خوش خوش چل دیئے اس یہودی نے دیکھا کہ باوجود امیرالمومنین ہونے کے اور ہر قسم کی قوت کے ان پر کوئی اثر مقدمہ کے ہارنے کا نہیں ہوا یہی دلیل ہے اس مذہب کے حق ہونے کی جس کا اثر قلوب میں ایسا خالص ہے وہ آگے بڑھا اور حضرت سے عرض کیا کہ یہ زرہ آپ کی ہے اور مجھے مسلمان کر لیجئے اسی وقت اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا پھر وہ زرہ آپ نے اس کو ہبہ کر دی ۔ دوسرا واقعہ ایک یہودی نے خلیفہ وقت ہارون رشید پر قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ قاضی اس وقت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ تھے مسئلہ یہ ہے کہ اگر امیرالمومنین خود عدالت میں آئیں تو قاضی کو اپنی مسند چھوڑ کر امیرالمومنین کو اس جگہ بٹھلانا چاہیے اور امیرالمومنین کے خصم کو بھی اسی مسند پر بٹھلائے تا کہ دونوں میں مساوات رہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے مسند تو چھوڑ دی اور