ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کر دیں ، میں نے کہا کہ یہی احتمال شوری میں بھی ہے بلکہ اہل شوری کے متعلق تو ایسے واقعات ہیں جس میں ان کی رائے پر اثر ڈالا گیا اور سرپرست کے تو ایسے واقعات بھی نہیں ۔ غرض اس پر اتفاق رائے ہو گیا کہ مجھ کو سرپرست بنایا جائے ۔ میں نے کہا کہ ایک میری رائے اور ہے وہ یہ کہ عجلت سے کام لینا مناسب نہیں ، مرکز پر جا کر اور اپنے احباب سے مشورہ کر کے اور خود بھی آزادی کے ساتھ فکر اور غور کر کے جو بات قرار پائے مجھ کو لکھ دی جائے اور یہ بھی سن لیجئے کہ مجھ کو اس کا انتظار بھی نہ ہو گا اس لیے کہ مجھ کو اس کا اشتیاق نہیں جن صاحب کے ہاتھ کی وہ بیہودہ تحریر تھی جس سے انہوں نے معافی مانگ لی تھی اس معافی کی اشاعت کے متعلق انہوں نے تو کچھ نہیں کہا مگر ان کی طرف سے ایک صاحب بطور وکیل گفتگو کرنے لگے کہا کہ وہ مضمون معافی کا النور یا الہادی میں شائع کر دیا جائے ، میں نے کہا کہ یہ رسالے تو میری طرف منسوب ہیں ان میں چھاپنا موہم ہو گا ۔ میری استدعا کو مستقل چھاپو ، کہا کہ اخبارات میں مضمون دے دیا جائے ، میں نے کہا کہ یہ بھی مناسب نہیں اس لیے کہ اخبارات نا اہلوں کے ہاتھ میں جاتے ہیں مجھ کو یہ بھی گوارا نہیں کہ ان صاحب کی تحریر کی اہانت نا اہلوں کی نظر میں ہو ، غرض کہ میری طرف منسوب رسالوں میں شائع ہو ، یہ میری وضع کے خلاف ہے اور اخبارات میں شائع ہو وہ آپ کی شان کے خلاف ہے اور جو کچھ مجھ کو شکایت ہوئی محض اس وجہ سے کہ آپ کو محبت کا دعوی ہے معاملہ سے بھی اس کا اظہار کیا جاتا ہے اور زبان سے بھی کہا جاتا ہے انا محب لک ورنہ میں تو اپنے کو اس سے بھی بدتر سجمھتا ہوں جتنا مجھ کو کہا جاتا ہے دیکھئے احمد رضا خان صاحب نے مجھ کو ہمیشہ برا کہا مگر مجھ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا ۔ ایک صاحب بولے کہ جس تحریر پر شکایت ہے ان صاحب تحریر کی عادت ہی ایسی ہے ان کی تحریر کا طرز ہی یہ ہے میں نے کہا کہ آپ کچھ خیال نہ کریں اس جاننے کے ساتھ کہ ان کا یہ طرز ہے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دوسرے کا یہ طرز ہے کہ وہ اس سے دلگیر دل گرفتہ ہوتا ہے ان کا یہ طرز ہمارا یہ طرز پھر ہمارے طرز سے ہم کو کیوں روکا جاتا ہے اس پر خاموش ہو گئے ، کوئی جواب نہ دیا اور صاحب تحریر نے مجھ سے جب معافی مانگی میں نے صاف کہہ دیا کہ معافی تو یہ ہے میں نہ دنیا میں مواخذہ کروں گا نہ