ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اس عورت کی حکایت کے مناسب ایک اور حکایت حضرت مولانا گنگوہی نے نقل فرمائی ۔ گنگوہ میں ایک بے قید درویش آیا ، شہرت ہوئی ، ایک آوارہ عورت کو بھی معلوم ہوا اس نے اپنے آپ سے کہا کہ چلو ہم بھی اللہ والے کی زیارت کر آئیں ، دونوں گئے ، مرد تو جا کر شاہ صاحب کے پاس بیٹھ گیا اور عورت بوجہ شرمندگی ایک طرف بیٹھ گئی ۔ شاہ صاحب نے پوچھا یہ کون ہے ؟ اس نے کہا کہ بازاری عورت ہے آپ کی زیارت کو آئی ہے مگر بوجہ اس پیشہ کے شرمندگی کے سبب پاس آنے سے رکتی ہے ۔ وہ شاہ صاحب کیا کہتے ہیں کہ بی بی پاس آ جاؤ ، شرمندگی کی کون سی بات ہے وہی کرتا ہے وہی کراتا ہے یہ الفاظ سن کر اس عورت کے سر سے پیر تک آگ لگ گئی اور کھڑی ہو گئی اور اس آشنا یعنی اپنے ساتھی سے کہا کہ بھڑوے تو تو اس کو بزرگ بتلاتا تھا یہ تو مسلمان بھی نہیں یہ کہہ کر وہاں سے چل دی ۔ کہتا ہوں کہ ان الفاظ سے اس حقیقت تک کسی مفتی کا ذہن تو پہنچ سکتا تھا مگر بیچاری جاہل نے کیسا سمجھا ، یہ فہم کی بات ہے اور اس میں فہم تو تھا ہی بغض فی اللہ کس درجہ تھا کہ بیٹھ نہ سکی ، خاموش نہ رہ سکی چل دی ۔ بھلا ان واقعات سے کیا کوئی کسی کی تحقیر کر سکتا ہے ؟ اور حقیر سمجھ سکتا ہے ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ میرے ایک دوست تھے قنوج میں وہ شاعر بھی تھے ان کا ماہواری رسالہ بھی نکلتا تھا ، اب انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے لکھا تھا کہ آپ میرے نام پر ہنسیں گے میرا نام ہے بھگو خان ۔ میں نے لکھا کہ میں ہنسوں گا نہیں یہ تو " ففروا الی اللہ " کا ترجمہ ہے اللہ کی طرف بھاگنے والا اس پر خط آیا مسرت کا اظہار کیا ، غرض کسی کے نام پر کسی کے اعمال پر کسی کے لقب پر کسی کی ظاہری حالت پر ہر گز تحقیر نہ کرنا چاہیے مگر اتنی بھی رعایت نہ چاہیے جیسے ان شاہ صاحب نے کی کہ اس فعل معصیت کو توحید میں داخل کیا ۔ ( نعوذ باللہ منہ ) مگر اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ جیسے ان شاہ صاحب نے اس آوارہ اور بازاری عورت کی رعایت کی گو اس کی نظر میں شاہ صاحب مسلمان بھی نہ رہے ۔ اسی طرح لوگ علماء کو مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زمانہ کے اعتبار سے مسائل میں عوام کی رعایت کرنا چاہیے مگر معلوم بھی ہے کہ ایسا کرنے سے سب سے اول ہم ہی ان کی نظروں سے گریں گے ۔ پس نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری نظر سے بھی گریں گے اور دین داروں کی نظر سے بھی ۔ اب اہل حق کی نسبت کہتے