ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اپنے نفس پر بھی متشدد ہوں اور اپنی فکر میں دوسروں کی اصلاح سے زائد لگا ہوا ہوں بے فکر نہیں ہوں ، خدا کے سامنے مجھے بھی کھڑا ہونا ہے اسی لیے میں بھی اپنی حالت کے متعلق سوچتا رہتا ہوں اور فکر کرتا رہتا ہوں بے فکر نہیں ہوں سو جو شخص اپنی اصلاح کی فکر میں ہو وہ دوسروں کی اصلاح کے معاملہ میں کیا خوشامد کرے گا یا چاپلوسی کرے گا ہر گز نہیں اور میں تو کسی کو کوئی مشکل کام بھی نہیں بتلاتا مگر اس کا کیا علاج کہ وہ اتباع ہی کو مشکل سمجھتے ہوں ۔ سو وہ مشکل دوسرے کا اتباع ہے کیونکہ اس میں نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے اور عوام اس میں غلطی کریں تو کریں حیرت تو یہ ہے کہ علماء بھی غلطی کرتے ہیں اور یہاں تو عوام زیادہ نہیں آتے اکثر علماء ہی آتے ہیں ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ ان میں بھی اکثر اصلاح سے بے فکر وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں آ کر غلطیوں پر تنبیہ ہوتا ہے تب آنکھیں کھلتی ہیں دوسری جگہ کہیں روک ٹوک نہیں ہوتی نہ تنبیہ کیا جاتا ہے اس لیے وہ بجائے فکر کے برعکس مجھ کو متشدد سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو حساب خود لگا کر آئے ہیں میں اس میں ان کی موافقت کروں جیسے ایک بہرہ نے اپنے دوست کی عیادت میں حساب لگایا تھا ۔ قصہ یہ ہے کہ ایک بہرہ شخص کسی دوست کی عیادت کو گیا اور چونکہ سنتا کم تھا ۔ ادھر بیمار کی آواز ضعیف ہوتی ہے اس لیے ذہن میں حساب لگا لیا کہ میں یہ پوچھوں گا وہ یہ جواب دے گا پھر میں یوں کہوں گا چنانچہ جا کر پوچھا کہ کیا حال ہے ۔ مریض نے کہا کہ مر رہا ہوں وہ کہتا ہے الحمد للہ پھر پوچھا کہ غذا کیا ہے کہا کہ زہر ہے کہا کہ خدا کرے ہضم ہو جان کو لگے بڑے خوش ہوئے کہ ہم نے عیادت کی ۔ اسی طرح یہ لوگ دو چار تسبیح و نوافل پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑی عبادت کی اور اصلاح ہو گئی ، اس طرح حساب لگا کر آتے ہیں جس طرح اس بہرہ شخص نے حساب لگا لیا تھا اور میں اس حالت میں بھی آنے والوں کی حرکات پر صبر کر سکتا ہوں مگر اس صبر سے ان کا کیا بھلا ہو گا ، دوسرے صبر دشمن سے تو ہو سکتا ہے دوست سے نہیں ہو سکتا ۔ ایک شخص ہے کہ وہ دعوی کرتا ہے : انا محب انا مخلص انا عاشق انا کذا انا کذا تو اس کی مخالفت کیسے گوارا ہو گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر کفار نے پتھر برسائے ، کچھ پروا ہی نہیں کی اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ذرا کوئی بات ہوتی تھی فورا تغیر ہو جاتا تھا ۔ حضرت