ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
جب تم کو ایک سوئی کے چھبنے کا بھی تحمل نہیں ہے تو جسم پر شیر کی صورت گدوانے کا خیال ہی چھوڑ دو ( کہ جسم پر شیر کی تصویر بنانے کے لیے تو بہت سی سوئیاں چھبونا ہوں گی ) ارے جب تیرے اندر ایک سوئی کے کوچنے کو بھی برداشت اور قوت اور تحمل نہیں تو اس میدان میں جہاں ہزاروں توپیں اور مشین گنیں اور تلواریں چل رہی ہیں کیوں قدم رکھا تھا جھوٹا ہے تو اور کذاب ہے اپنے کو مرد میدان کہتا ہے اور یہ سب تیری باتیں ہی باتیں ہیں صرف باتوں سے اس میدان میں کام نہیں چل سکتا ۔ اسی لیے کہتے ہیں : قدم باید اندر طریقت نہ دم کہ اصلے ندارد دمے بے قدم ( راہ سلوک میں عمل کی ضرورت ہے نہ کہ باتیں بنانے کی کہ بغیر عمل کے صرف باتوں کی یہاں کوئی قدر نہیں ۔ 12 ) یہ تو وہ راہ ہے کہ بڑوں بڑوں کو چرکہ دیا جاتا ہے ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب اور حضرت مولانا گنگوہی بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔ مولانا شیخ محمد صاحب آ گئے ، دیکھ کر کہنے لگے کہ آج تو مرید صاحب کے اوپر بڑی ہی نوازش ہو رہی ہے ، ساتھ کھانا کھلایا جا رہا ہے ۔ حضرت حاجی صاحب نے باوجود یکہ حضرت مولانا کا بے حد ادب فرماتے تھے مگر اس وقت مصلحت تربیت کے لیے فرمایا کہ ہاں ہے تو میری عنایت کہ میں اس طرح ساتھ بٹھلا کر کھلا رہا ہوں ورنہ مجھ کو تو یہ حق ہے اور ان کی حیثیت ہے کہ میں روٹی ان کے ہاتھ پر رکھ کر کہتا کہ وہاں بیٹھ کر کھاؤ اور اس ارشاد کے ساتھ ہی کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی تغیر تو نہیں ہوا ۔ یہ واقعہ ہے کہ حضرت مولانا گنگوہی پر ذرہ برابر ناگواری کا اثر نہیں ہوا ، کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ کو ناگوار تو نہیں ہوا تھا ، فرمایا کہ جہاں سے کچھ ملا کرتا ہے یا ملنے کی کچھ امید ہوتی ہے وہاں سے ناگواری نہیں ہوا کرتی ۔ مشاہدہ ہے کہ کیمیاگر اگر لنگوٹا بند بھی ہو مگر اس کے پیچھے بڑے بڑے آدمی حقہ اٹھائے پھرتے ہیں گو وہ کتنا ہی میلا کچیلا سڑا ہوا ہو طالب کی تو یہ شان ہونا چاہیے اور مصلحین کی یہ شان ہونا چاہیے : ہر کہ خواہد گوبیاؤ ہر کہ خواہد گوبرو داروگیرد حاجب و درباں دریں درگاہ نیست میں ناتمام سی نقل اس شان کی کرتا ہوں تو بدنام کیا جاتا ہوں کہ تشدد ہے اور میں تو واللہ