ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
اس عورت نے کہا کہ روپیہ تو خود میرے پاس بہت ہے اور تم شہادت کو تیار ہو مگر مجھ کو ایک خیال دعوی سے مانع ہے وہ یہ کہ میں سوچتی ہوں کہ اس شخص کے اندر اگر دنیا کا ذرا بھی نام و نشان ہوتا تو مجھ پر اس کا ہاتھ ہر گرز نہ اٹھتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اللہ والا ہے سو اس کا مقابلہ حق تعالی کا مقابلہ ہے میری اتنی ہمت نہیں ۔ دیکھئے یہ ایک بازاری عورت کا بیان ہے پھر یہاں تک یہ اثر بڑھا کہ وہ عورت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں تائب ہوتی ہوں کسی بھلے آدمی سے میرا نکاح کر دیا جائے ۔ واقعی ان حضرات کی تو جوتیوں میں بھی برکت ہے ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کا فرمانا کہ جوتا روشن دماغ ہوتا ہے بالکل صحیح ہے غیر محصن زانی کے متعلق حکم ہے کہ سو درے لگاؤ اس سے دماغ درست ہو جاتا ہے اور اسی حکم کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے کہ خدا کے معاملہ میں رحم نہ ہونا چاہیے ، مؤمنین کو اور اس عدم ترحم کو شرط ایمان فرمایا : ان کنتم تؤمنون باللہ و الیوم الاخر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب تو طلباء کو پیٹتے وقت بڑی ہی ظرافت سے کام لیا کرتے تھے ، پٹنے والا کہتا کہ حضرت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے معاف کر دو ، فرماتے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے حکم دیا ہے کہ ایسے شریروں کی خوب ڈنڈوں سے خبر لو ، میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے واسطے مارتا ہوں اور حضرت مولانا نے ایک بار فرمایا کہ یہ بھی سنت اللہ ہی ہے کہ ایک کرے سب کو پیٹو ۔ چنانچہ قحط وباء عام ہوتا ہے اور واقع میں کرنے والے بھی سب ہی ہوتے ہیں ۔ مثلا قدرت ہوتے ہوئے نہ روکنا و مثل ذلک مگر ظاہر کے اعتبار سے یہ فرما دیا کہ ایک کرے اور سب کو سزا ہو پھر اس کی ظاہری تائید میں مولانا نے ایک حکایت فرمائی کہ عالمگیر کے زمانہ میں روزانہ بازار والوں میں اور فوج والوں میں لڑائی ہوا کرتی ، مقدمہ ہوتا ، زیادہ تر فوج والوں ہی کو سزا ہوتی ، جیل خانہ پر ہو گیا ، بادشاہ کو اطلاع ملی کہ یہ صورت ہے اور روزانہ ایسا ہونے لگا ہے ، حکم دیا کہ اب کے جو ایسا معاملہ پیش آئے ہمارے پاس بھیج دو ، چنانچہ اگلے ہی روز ایک معاملہ پیش آیا ، عالمگیر کے یہاں بھیج دیا گیا ، عالمگیر نے فوجیوں کے ساتھ آس پاس جو بازار والے تھے ان کو بھی سزا دی ، بس پھر کوئی مقدمہ نہ آیا اس کی وجہ عالمگیر نے یہ فرمائی کہ پہلے بازار والے تماشا دیکھتے تھے نہ چھوڑاتے تھے نہ منع