ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
ناخوش تو خوش بود برجان من دل فدائے یار دل رنجان من اس بیان کے وقت حضرت والا پر ایک خاص حالت طاری تھی جس کا لطف اہل مجلس ہی اٹھا رہے تھے اور قریب قریب اہل مجلس پر گریہ طاری تھا ۔ ( احقر جامع ) پھر دوبارہ حالت جوش میں حضرت والا نے فرمایا کہ خوب ہی فرمایا : نا خوش تو خوش بود برجان من دل فدائے یار دل رنجان من پھر اسی معاصی کے اثر کے سلسلہ میں فرمایا کہ بعض لوگ وہ ہیں جو بظاہر خود تو اعمال صالحہ کرتے ہیں اور معاصی سے بچتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کے افعال غیر مشروع و معاصی میں بھی شریک رہتے ہیں جو خدا کے نافرمان ہیں ۔ محض اس خیال سے کہ یہ دنیا ہے اس میں رہتے ہوئے برادری کنبہ کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے اور یہ مقولہ زبان زد ہے کہ میاں دین سے دنیا تھامنا بھاری ہے اور بعض وہ ہیں کہ شریک تو نہیں ہوتے مگر ہوتے دیکھ کر ان منکرات کرنے والوں کے افعال سے نفرت بھی نہیں ہوتی انہیں شیر و شکر کی طرح ملے جلے رہتے ہیں ۔ یعنی روزانہ کھانے پینے میں ان سے کوئی پرہیز نہیں کرتے ۔ حاصل یہ ہے کہ اپنے کسی برتاؤ سے ان پر اظہار نفرت نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کے اعتبار سے اس شبہ مذکورہ کا جواب یہ ہے کہ یہ شرکت یا سکوت خود معصیت ہے تو ان کا ابتلاء بھی معصیت کے سبب ہو گا اور یہ سوال نہ ہو سکے گا کہ غیر معاصی پر بھی مصائب آتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث شریف میں امم سابقہ کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ فلاں بستی کو الٹ دو عرض کیا کہ اے اللہ ! فلاں شخص اس بستی میں ایسا ہے کہ اس نے کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی ، حق تعالی فرماتے ہیں کہ مع اس کے الٹ دو وہ بھی ان ہی میں سے ہے اس لیے کہ ہماری نافرمانی دیکھتا تھا اور کبھی اس کے تیور میں بھی بل نہ پڑتا تھا اور اس کی مثال تو دنیا میں موجود ہے جو شخص حکومت اور سلطنت کے باغیوں سے میل رکھتا ہے یا ان کو مدد دیتا ہے وہ شخص بھی باغیوں ہی میں شمار کیا جاتا ہے ہم جس کے وفادار ہیں وفاداری اسی وقت تک ہے کہ ہم اس کے دشمنوں سے نہ ملیں ورنہ ایسے شخص کو وفادار ہی نہ کہیں گے جو دشمنوں سے ملے یہ تو اجتماع ضدین ہے دونوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی کو فرماتے ہیں :