ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
پژمردہ ہے اور ملال کے آثار ہیں ۔ بیربل نے عرض کیا کہ آج حضور کے مزاج کیسے ہیں ، فرمایا کہ آج شب کو یہ واقعہ پیش آیا اس سے یہ خیال قلب پر چھا گیا ہے ۔ بیربل نے عرض کیا کہ حضور یہ کون سی مشکل بات ہے ، میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر مبارک کتنی ہوئی ؟ اکبر نے کہا کہ تریسٹھ سال کی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کو کتنا عرصہ ہوا ، کہا ہزار سال سے زیادہ ، بیربل نے عرض کیا کہ جس ذات نے تریسٹھ سال کے اندر تمام عالم کو منور اور روشن کر دیا اس ذات کو زمین کے اندر گئے ہوئے ہزار سال ہو گئے ، کیا باطن زمین آپ سے منور اور روشن نہ ہوئی ہو گی اور قبور باطن زمین میں ہیں ، ہر امتی کو انشاءاللہ قبر روشن ملے گی ۔ تھا تو بیربل ہندو مگر حقیقت کو کس عجیب عنوان سے بیان کیا ۔ اس قصہ میں دیکھئے اکبر جیسے آزاد شخص کو اس فکر نے کیسا پریشان کر دیا ، غرض اس فکر میں یہی خاصیت ہے ، میں اسی کو کہ رہا تھا کہ اہل اللہ کو وہ فکر اور غم ہے کہ اگر اس کی تم کو ہوا بھی لگ جائے تو تمام غم اور فکر اس کے سامنے گرو ہو جائیں ، واللہ ثم واللہ ان کے دلوں پر ہر وقت آرے چلتے ہیں جن کی آپ کو خبر بھی نہیں پھر ان کو ان فضول جھگڑوں کی کہاں مہلت کہ وہ ان میں پڑیں ان کو اگر اس غم و فکر سے مہلت ہو یا فرصت ہو تو ان غموں کو لے کر بیٹھیں ۔ اسی کو فرماتے ہیں : اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی کہ چیست حال شیرا نے کہ شمشیر بلا برسر خورند ( تمہارے پیر میں کبھی کانٹا نہیں لگا تو تم ان حضرات کی تکلیف کا کیا اندازہ کر سکتے ہو جو تلواریں کھاتے ہیں ) میں اس کا انکار نہیں کرتا کہ آپ کو فکر نہیں آپ کو بھی فکر ہے مگر فرق اتنا ہے کہ آپ کو دشمن کی فکر ہے اور ان کو محبوب کی فکر ۔ غرض اہل اللہ بے فکر نہیں ان کے دلوں پر فکر اور غم کا پہاڑ ہے جس نے ان کو تمام غموں اور افکار سے بیکار کر دیا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ اس قسم کے تعلقات سے گھبراتے ہیں ۔ مولانا رومی اسی کو فرماتے ہیں : خوو چہ جائے جنگ و جدل دینک و بد کایں ولم از صلحہا ہم می رمد