ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
رائے سے ۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ : جملہ اوراق و کتب در نارکن سینہ را از نور حق گلزار کن البتہ کتابیں معین ضرور ہیں ، کتابیں پڑھنے والا جس قدر سمجھ سکتا ہے نہ پڑھنے والا سمجھ نہیں سکتا ۔ پس یہ شرط کے درجہ میں ہے علت کے درجہ میں نہیں اور یہ جو میں کہا کرتا ہوں کہ اختیاری کا ترک بھی اختیاری ہے تو پھر پیر کی کون سی ضرورت ہے ۔ یہ کتابوں کی مدد سے نہیں کہتا یہ بھی شیخ ہی کی صحبت کا فیض ہے ورنہ کتابیں اوروں سے زیادہ ہم نے بھی نہیں پڑھیں ۔ پس یہ سب کچھ صحبت شیخ ہی کی بدولت ہے اور یہ ضرورت شیخ کی ایسی ہے کہ جیسے کسی بچہ کا باوا چاہے جنوا کر مر جائے پرورش میں اس کی ضرورت نہیں مگر جنوانے میں تو ضرورت ہے باوا کی یا جیسے مرغی کے نیچے انڈے رکھتے ہیں تو ضرورت تھی مرغی کی لیکن اگر انڈے بطخ کے ہیں تو بچے نکلنے کے بعد خود مرغی تو دریا کے کنارے کھڑی ہے اور اس کے بچے تیر رہے ہیں یہ تفاوت استعداد کا ہے پس ممکن ہے کہ مرید اکمل ہو جائے پیر سے مگر تربیت کے لیے اس کو بھی پیر کی ضرورت ہو گی پھر بعد حصول مقصود بعض اوقات پیر کو مرید کے مقام کی خبر بھی نہیں ہوتی یہاں سے ایک شخص کا جہل بھی ثابت ہو گیا ہے جو اپنے شیخ کے ساتھ گستاخی کرنے سے مسلوب الحال ہو گیا تھا مگر وہ اس گمان میں تھا کہ میں صاحب حال ہوں جب دوسروں کے کہنے سے اس کو شبہ واقع ہوا تو اس نے ایک مجذوب سے کہا کہ دیکھنا مجھ میں نسبت باقی ہے یا نہیں ؟ اس کی ایسی مثال سمجھ لو کہ ایک ضعیف الباہ شخص کسی طبیب سے کہے کہ میرا خاص بدن پکڑ کر دیکھ کہ میں مرد ہوں یا نہیں ۔ اس سے خود معلوم ہو گیا کہ مرد نہیں دوسروں سے معلوم کراتا پھرتا ہے ۔ یہی حالت اس مسلوب الحال کی تھی اور اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ابتداء ہی سے جو محجوب ہو وہ اتنا برا نہیں جس قدر مسلوب الحال برا ہوتا ہے محجوب کو نسبت حاصل ہو سکتی ہے مگر مسلوب النسبت کو عادۃ پھر نسبت حاصل نہیں ہوتی اور یہ مسلوب کہنا باعتبار ظاہر کے ہے ورنہ واقع میں یہ شخص صاحب نسبت ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ نسبت حقیقی حاصل ہو کہ پھر غیر اہل نسبت نہیں ہو سکتا جیسے پھل پک کر کچا نہیں ہوتا یا بالغ ہو کر نابالغ نہیں ہو سکتا ۔ گو غلطی سے اس کو شبہ ہو گیا کہ میں صاحب نسبت ہو گیا جیسے صبح کاذب کو کوئی صادق سمجھ لے جس کو مولانا فرماتے ہیں :