ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
ہوا بھی نہ ہوتا تب بھی چونکہ علم و قدرت کا تو ہر حادثہ سے تعلق ہے اس لیے جو ہو رہا ہے اس کے خلاف ہر گز نہ ہوتا ۔ قضیہ عقلیہ مسلمہ ہے کہ الشیء مالم یجب لم یوجد پھر اس وجوب پر جو اشکالات ہیں ان کو نہ متکلمین حل کر سکے اور نہ فلاسفر ، یہی مسئلہ ہے تقدیر کا جس کی کنہ کسی مخلوق کو معلوم نہیں اسی لیے اس میں خوض کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے کہ اس کا انکشاف نام جنت میں بھی نہ ہو گا ہاں اتنا فرق ہے کہ یہاں وساوس اور تردد ہوتا ہے ۔ جنت میں تردد اور وساوس نہ ہوں گے بوجہ غلبہ محبت کے اور اس مسئلہ میں شفاء جبھی ہو سکتی ہے کہ خدا تعالی سے تعلق صحیح ہو جائے اور قیل و قال سے اور زیادہ شبہات پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی واسطے سلف نے علم کلام میں انہماک کو منع کیا ہے سو ان دلائل اور چھان بین سے تو یہ بہتر ہے کہ حق تعالی کی طرف توجہ کی جاوے اور یہ سمجھا جائے کہ ہمارے نوکر ہمارے اسرار نہیں جانتے اور اگر ہم کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا نوکر ہمارے اسرار معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ مستوجب سزا ہو گا کہ تجھ کو منصب کیا ہے ہمارے اسرار پر مطلع ہونے کا ۔ بس ایسے ہی یہاں پر سمجھ لیا جائے اس معاملہ میں تو صحابہ کرام کی عجیب شان تھی ان کی طبیعتیں اس قدر سلیم تھیں کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا اسی طرح ان کو یقین ہو گیا ان کو ایسے اشکال بھی نہیں ہوتے تھے اس قدر عقل سلیم اور طبیعتیں پاک تھیں اور ہماری تحقیق ہی کیا کہ جس کی بناء پر حقیقت کا انکشاف ہو اور اسرار پر مطلع ہوں ، حقائق کے سامنے ہماری یہ مثال ہے کہ پانی کے ایک قطرہ میں لاکھوں کیڑے ہوتے ہیں اگر ان میں سے ایک کیڑا سر ابھار کر آئے اور کہے کہ اس ریل سے کیا فائدہ اور اس تھرمامیٹر سے کیا نفع اور ٹیلی فون کیا چیز ہے اور ٹیلی گراف کس کو کہتے ہیں ؟ تو کیا اس کی یہ کوشش معقول ہو سکتی ہے سو جیسے اس کیڑے کی حقیقت ہے انسان کے سامنے ایسے ہی انسان کی حقیقت ہے حق تعالی کے سامنے بلکہ اس کیڑے کو تو کچھ انسان سے نسبت ہے بھی کیونکہ دونوں محدود ہیں اور انسان کو حق تعالی کی ذات کے سامنے اتنی بھی نسبت نہیں کیونکہ محدود کو غیر محدود سے کیا نسبت ۔