ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کے بیان کیا تھا مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ بے منشاء سمجھے تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی ، کوئی منشاء ہی سمجھ کر غلطی ہوتی ہے ، شیطان بھی تو کچھ سمجھا ہی تھا اور یہ سمجھا تا کہ میں بڑا ہوں اور یہ چھوٹا مگر وہ سمجھ غلطی نکلی ۔ معلوم ہوا کہ محض منشاء کا ہونا برات کے لیے کافی نہیں ورنہ پھر تو کسی بات پر مواخذہ نہ ہونا چاہیے ۔ اس پر صاحب خاموش رہے اور منشاء کے غلط ہونے تک کا اقرار نہیں کیا ۔ فرمایا کہ یہ دوسری غلطی ہے کہ جواب نہیں دیتے کہاں تک آپ لوگوں کے اقوال و افعال میں تاویلات کیا کروں ، کیوں ستانے پر کمر باندھ رکھی ہے ۔ بتلائیے باوجود تنبیہ کے پھر بھی کوئی جواب نہیں کیا ٹھکانا ہے اس تمرد اور سرکشی کا ۔ یہ اصلاح کرانے کے لیے آتے ہیں پتھر کے بت بن کر خود اپنی پرستش چاہتے ہیں ۔ میں تو کہتا کہتا تھک گیا ، قریب قریب ناامید ہو گیا اس قدر بدفہمی اور کم عقلی کا دور دورہ ہے کہ کوئی بات بھی تو ڈھنگ اور سلیقہ کی نہ رہی اور یہ بات تو دنیا سے قریب قریب مفقود ہی ہو گئی کہ اس کا خیال ہو کہ ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف اور اذیت نہ پہنچے اور زیادہ افسوس ناک تو میری حالت ہے کہ میں ہی ساری دنیا سے کیوں جدا ہوں اور لوگوں کی غلطیاں نکالتا ہوں ۔ حالت موجودہ بالکل اس کے مشابہ ہے کہ ایک وزیر نے آثار سے معلوم کیا کہ ایک بارش ہو گی اور جو کوئی اس کا پانی پئے گا مجنون ہو جائے گا ۔ بادشاہ سے عرض کیا اور اس کی اجازت سے یہ انتظام کیا کہ اچھے پانی کا ایک حوض بھر لیا گیا تا کہ اس بارش کا پانی استعمال نہ کریں ۔ چنانچہ وہ بارش ہوئی اور بجز بادشاہ اور وزیر کے سب نے اس کا پانی پیا اور مجنون ہو گئے ۔ اب شہر میں جلسے شروع ہوئے کہ وزیر بادشاہ مجنون ہو گئے ہیں ان کو تخت و تاج سے الگ کر دینا چاہیے ، بادشاہ بہت گھبرایا اور وزیر سے مشورہ کیا ، بعد مشورہ یہ قرار پایا کہ ہم تم بھی پی لیں ، غرض کہ بادشاہ اور وزیر نے بھی وہ پانی پی لیا ان کی بھی وہی مجنونہ حالت ہو گئی سب رعایا میں خوشی ہوئی کہ بادشاہ اور وزیر کو خدا نے صحت عطاء فرما دی وہی صورت قریب قریب یہاں نظر آ رہی ہے ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ آدمی جس کے پاس اپنا کام لے کر جائے کم از کم اس کی بھی تو کچھ رعایت کرنا چاہیے کہ اس کو تکلیف نہ دے یہ میں نہیں کہتا کہ تم بزرگ سمجھ کر آؤ معتقد بن کر آؤ ، آ کر جوتے سیدھے کرو ، صرف یہ چاہتا ہوں کہ خدمت لو مگر انسانیت سے تہذیب سے