ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
پیروں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا کریں وہ اس خوش ہوتے ہیں مگر ہمیں تو اس سے مناسبت نہیں ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے ایسے رہتے تھے جیسے کوئی ہے ہی نہیں ۔ حضرت والا یہ فرما ہی رہے تھے کہ ایک شخص دیہاتی اہل مجلس کے کاندھوں کو پھاندتا ہوا مصافحہ کی غرض سے حضرت والا کی طرف چلا آ رہا تھا ، حضرت والا نے دیکھ کر دریافت فرمایا کہ بھائی وہیں سے کہو جو کہنا ہے اتنے مسلمانوں کو کیوں تکلیف دیتے ہوئے چلے آ رہے ہو ، عرض کیا مصافحہ کی غرض سے آ رہا ہوں ، فرمایا بندہ خدا اسی کا تو ذکر ہو رہا ہے ، کیا مصافحہ فرض ہے واجب ہے جس کی وجہ سے اتنے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ۔ ایک مستحب کے لیے اس قدر اہتمام کیونکہ مصافحہ محض مستحب ہے اور تکلیف نہ پہنچانا فرض ہے اس کامطلق بھی خیال نہیں ۔ لوگ یہ بات ہی بھول گئے کہ کسی مسلمان کو اپنے سے تکلیف نہ پہنچے اور یہ کہ تکلیف کا پہنچانا گناہ ہے کچھ نہیں بدتمیز ہیں کچھ خبر نہیں جائز ناجائز کی پھر اس شخص سے فرمایا جاؤ ہٹو پیچھے وہاں جا کر بیٹھو ۔ فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ کھانا کھانے کے وقت میں سلام نہ کرے میں نے اس میں غور کیا یہ راز معلوم ہوا کہ ممکن ہے اس وقت گلے میں لقمہ ہو اور سلام کا جواب دیتے میں اٹک جائے ، پھندا پڑ جائے اور مر جائے جب بے موقع اور بے محل سلام کرنے کی ممانعت فرمائی گئی تو آج کل کی حالت دیکھ کر تو مصافحہ کو فقہاء حرام ہی کہتے ۔ اگر دین کی محبت ہے یا ہم سے محبت تو فرصت میں آ کر مصافحہ کیوں نہیں کرتے اور کیوں نہیں آتے جس کو مصافحہ کرنا ہو وہ گھر سے ملاقات کےقصد سے آ کر کیا کرے ، یہ کیا کہ آئے تو وہ نماز کو لاؤ یہ بیگار بھی کر چلو مجھ کو اس وقت اس قدر تکلیف ہوئی اور اذیت پہنچی کہ اس وقت تک حواس درست نہیں ہوتے ، مسجد ہی میں گھیر لیا ۔ ہوا رک رہی ہے روشنی کثرت ہجوم سے بند ہے ، آنت اتر آنے کی وجہ سے گرانی ہو رہی ہے ، میں کہہ رہا ہوں کہ ارے بھائی ٹھر جاؤ اور کئی مرتبہ کہہ چکا مگر جب کسی نہ سنا مصافحہ سے ہاتھ سمیٹ کر چلا آیا ، بے تنخواہ کے نوکر یا نافرمان نوکر جیسے ہوتے ہیں ایسے پیچھے پڑ گئے ، اللہ بچائے بے عقلی اور بد فہمی سے اب وہ لوگ آئیں جو مجھے سخت فرماتے ہیں ۔ اس واقعہ کو دیکھ کر فیصلہ کریں کہ کون بے رحم اور کون سخت ہے گھر بیٹھے تو فیصلہ کر دینا تو بہت آسان ہے لوگوں کی ان ہی بیہودہ حرکتوں سے حضرت رائے پوری کو سخت اذیت پہنچی ، بیماری میں آرام نہ مل سکا ۔ آخر حضرت نے یہی فرمایا کہ تھانہ بھون کی رائے