ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کرتا ہوں کہ سوائے ملاقات کے اور کسی غرض سے نہیں آنا چاہیے حتی کہ مخاطبت و مکاتبت بھی مقصود نہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر خلاف اصول کچھ کہا یا لکھا چونکہ وہ سامنے ہوتے ہیں اس لیے ایسی مخاطبت مکاتبت سے تغیر ہوتا ہے اور سامنے ہونے سے بالمشافہ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے ۔ پھر طالبوں کی شان بھی مختلف ہوتی ہے اور بعض کی تو بد تمیزی ناگوار نہیں ہوتی اور بعض کی بے حد ناگوار ہوتی ہے اور اکثر بدمزگی کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ متکلم یا کاتب میں سلیقہ نہیں ہوتا اور ہوتا ہے وہ سامنے اس لیے اضطرارا مشافہت کا تقاضا ہوتا ہے اور اختلاف بڑھ جاتا ہے بخلاف اس کے کہ وطن سے مکاتبت کی جائے سو چونکہ سامنے ہوتا نہیں اس لیے ناگواری بھی نہیں ہوتی یہ اصول ہیں ان کے خلاف میں طرفین کو کلفت ہوتی ہے اور چونکہ اصول صحیحہ ہر موقع پر واجب الاتباع ہوتے ہیں اس لیے میں بیعت بھی اصول سے کرتا ہوں اور تعلیم بھی اصول کے ماتحت ہوتی ہے ۔ مثلا ان کی قوت کی رعایت ان کے مشاغل کی رعایت الحمد للہ ہر ہر چیز پر میری نظر رہتی ہے اور یہ میں نے تجربہ مذکورہ کی بناء پر طے کر لیا ہے کہ یہاں پر نئے آنے والوں کی تعلیم و بیعت سے خدمت نہ کروں گا ۔ یہاں پر تو صرف ملاقات کے لیے آئیں پھر اگر وہ میری باتیں سن کر وطن پہنچ کر اپنے حالات سے اطلاع دیں تو میں خدمت کو موجود ہوں ۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ مشافہۃ بیعت کی شرائط بھی نہ بتلاؤں گا یہاں پر تو اس کے متعلق کوئی ذکر ہی نہ ہونا چاہیے خاموش بیٹھے رہیں پھر وطن میں جا کر غور اور فکر کے بعد جو رائے قائم ہو اس سے اطلاع دیں اور یہ بھی اختیار ہے کہ جو کچھ یہاں سے لے کر جائیں وہاں جا کر ردی کی ٹوکری میں رکھیں ہاں جن سے بے تکلفی ہے وہ ان قواعد سے مستثنی ہیں اور ان اصول اور قواعد میں میری تو صرف مصلحت دنیاوی ہی ہے یعنی راحت مگر ان کی مصلحت دینیہ ہے اور میں تو ترقی کر کے کہتا ہوں کہ یہ ایک عام بات ہونی چاہیے کہ اگر کسی کو شاگرد بنائے چاہے علوم میں چاہے صنعت میں حتی کہ اگر روٹی ہی لگانا سکھائے سب کو اصول اور قاعدے سے سکھانا چاہیے ، اگر بے ڈھنگے پن سے کام لیا تو اس کا اثر فن پر پڑے گا یعنی فن بدنام ہو گا اور یہ سب باتیں بعد تجربہ کے امور طبعی ہیں ۔ اور تجربوں کے بعد یہ اصول اور قواعد منضبط ہوئے ہیں اور تحری کے بعد یہ باتیں