ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
میں نے آپ کو آنے کی اجازت دی ہے ۔ عرض کیا کہ عرصہ دو ماہ کا ہوا اس وقت ایک خط کے جواب میں حضرت والا نے آنے کی اجازت فرمائی تھی دریافت فرمایا کہ وہ خط کہاں ہے عرض کیا کہ وہ خط ساتھ لانا یاد نہیں رہا ۔ فرمایا کہ پھر مجھ کو کیسے اطمینان ہو اور یہ کس طرح معلوم ہو کہ میں نے کن شرائط سے آنے کی اجازت دی تھی ۔ یہ تو سب خط ہی سے معلوم ہو سکتا تھا اس پر انہوں نے کوئی معقول جواب نہ دیا ، فرمایا کہ ایسے ایسے کوڑ مغزوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔ اب بتلائیے میں کیا کروں ، گھر میں ایک ایسا مریض ہے کہ جس کی وجہ سے تمام گھر والے پریشان ہیں اور اس پر مہمان داری خیر اگر گھر میں یہ حالت بھی نہ ہوتی تب بھی تو اس طرح آنا بے اصول ہے اور بے اصول بات سے اذیت پہنچتی ہے اگر کوئی دوسرے سے اپنی سیر بھر رعایت چاہیے تو دوسرے کی پاؤ بھر تو رعایت کرنا چاہیے ۔ اگر خط ہمراہ لے آتے تو بڑی معونت ہوتی ۔ پتہ چل جاتا کہ اس شخص کا تعلق ہم سے کس قسم کا ہے اور یہ کس برتاؤ کا مستحق ہے اور میں تو یہ لکھ بھی دیتا ہوں کہ یہ خط ہمراہ لانا اور آتے ہی دکھا دینا اس میں بڑی مصلحت ہوتی ہے اب اگر یہ کہیں عدالت میں جاتے تو کیا کاغذات متعلقہ مقدمہ مکان پر بھول آتے ، ہر گز نہیں یا نوکری کی درخواست کو گھر رکھ آتے اور خالی ہاتھ حاکم کے سامنے جا کر کھڑے ہوتے یہ ہم ہی غریب مسکین ملانے تختہ مشق کے لیے رہ گئے ہیں اب اگر سکوت کرتا ہوں تو ان کے اخلاق خراب ہوتے ہیں اگر سکوت نہیں کرتا تو بعد دل دکھتا ہے کہ اتنی دور سے آئے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ ہوا مگر ہوا ان کی بے اصولی سے سبب اس کا وہی ہے جس کو میں اکثر کہا کرتا ہوں یعنی قلت وقعت اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ، فرمایا کہ اکثر لوگ پنجاب کے پیروں کے بگاڑے ہوئے ہیں وہ پیر تو یہ دیکھ لیتے ہیں کہ آنے والے نے مدور یا منور ( روپیہ ) بھی دیا ہے یا نہیں ، یا آئندہ دینے کی امید ہو ، بس پھر نہ کچھ روک نہ ٹوک ، پوچھ نہ گن ، مدور ! بیض کہتے ہیں روپیہ کو یہ مشہور محاورہ ہے مگر میں نے بجائے ابیض کے منور کر دیا ہے واقعی بڑی ہی منور چیز ہے بلکہ منور بھی اس سے دل اور دماغ سب منور ہو جاتے ہیں مگر الحمد للہ یہاں اس سے کام نہیں چلتا ۔ یہاں تو خلوص کی ضرورت ہے فلوس کی ضرورت نہیں ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ ان آنے والے صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ آنے والیوں میں سے ایک بی بی بہت رو رہی ہیں کہ