ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
لیے خود کچھ ارادہ ہی نہیں کرتے سو یہ عقیدہ جبری ہو گا اس کا علاج وہی ہے جو ایک حکایت میں مولانا رومی نے جبری عقیدہ کے مقبلہ میں نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص کسی باغ میںپہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر اس باغ سے پھل توڑ کر کھانے شروع کر دیئے ، اتفاق سے مالک باغ بھی آ پہنچا اس نے دریافت کیا کہ کیوں صاحب اس باغ کا کوئی مالک بھی ہے اور آپ نے اس سے اجازت بھی لی ہے اس شخص نے کہا کہ باوا باغ کا مالک کون ہوتا ہے خدا مالک ہے زمین خدا کی ، درخت خدا کے ، پانی خدا کا ، ہوا خدا کی ، پھل خدا کے ، میں خدا کا ، منہ خدا کا ، بھوک خدا کی ، پیٹ خدا کا لا فاعل الا اللہ اور لا موجود الا اللہ مالک نے کسی کو حکم دیا کہ ہمارا ڈنڈا اور رسی لاؤ اور ان صاحب کے ہاتھ پیر بندھوا کر دہ ڈنڈا دہ ڈنڈا ، اب میاں صاحب نے غل مچانا شروع کیا ، ہائے رے مرا مالک نے کہا کہ ہائے وائے کیا کرتا ہے میں خدا کا ، تم خدا کے ، رسی خدا کی ، ڈنڈا خدا کا یہ مار پیٹ خدا کی ۔ ( لا فاعل الا اللہ لا موجود الا اللہ ) دو ڈنڈے اور رسید کیے تب تو میاں صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور اس جبری عقیدہ سے توبہ کی ۔ مولانا فرماتے ہیں : گفت توبہ کردم از جبرائے عیار اختیار است اختیار است اختیار ( سوائے خدا کے کوئی کرنے والا نہیں اور سوائے خدا کے کوئی موجود نہیں ۔ ) ( کہنے لگا کہ عقیدہ جبر سے توبہ کرتا ہوں بے شک بندہ کو اختیار ہے ۔ ) کچھ نہیں یہ سب کم سمجھی اور بد فہمی کی باتیں ہیں ۔ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ اختیار ہے جب اثبات اختیار میں نفس کی غرض ہو اور ایک طرف اختیار کی نفی کرتے ہیں جب نفی میں غرض ہو اس کا علمی جواب تو ہے مگر جہلی جواب زیادہ مناسب ہے جو حکایت بالا میں مذکور ہے اس میں کوئی حرج شبہ ہی نہیں رہتا ، اول ہی بار میں صبح ہو جاتی ہے اور آدمی روشنی میں آ جاتا ہے ۔ شیطان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میری تقدیر میں سجدہ تھا یا نہیں اگر ہوتا تو میں ضرور کرتا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تھا تو پھر میں کیوں قصوروار ٹھرا ، جواب ملا کہ اب باتیں بناتا ہے اس وقت تیری یہ نیت کب تھی کہ تقدیر کی موافقت کر رہا تھا اس وقت تو تکبر اور شرارت سبب تھا