ملفوظات حکیم الامت جلد 2 - یونیکوڈ |
|
کام کرنے کی صورت تو یہ ہی ہے کہ اس آلودگی کی حالت میں خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ اس کی برکت سے فراغ بھی میسر ہو جائے گا ، تمہارا آج کل کرنا ایسا ہے جس کو فرماتے ہیں : ہر شبے گویم کہ فردا ترک ایں سودا کنم باز چوں فردا شودا امروز را فردا کنم ( ہر رات یہ ارادہ کرتا ہوں کہ کل کو اس گناہ کو چھوڑ دوں گا ، پھر جب کل کا دن ہوتا ہے تو پھر کل ہی کا ارادہ کرتا ہوں ) کس کا فراغ اور کس کا انتظار اور دنیا میں رہتے ہوئے کہاں فراغ یہ نفس و شیطان کا ایک بڑا زبردست کید ہے لوگ رسائی کی تو تمنا کرتے ہیں مگر معلوم بھی ہے کہ رسائی کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں جن میں پہلی شرط یہ ہے تم برے ہو یا بھلے اس طرف متوجہ ہو جاؤ ۔ پھر رحمت حق تم کو خود بخود جذب کرے گی ۔ طالب کی شان تو یہ ہونا چاہیے جیسے مولانا فرماتے ہیں : اندریں رہ می تراش و می خراش تادم آخر دمے فارغ مباش تادم آخر دمے آخر بود کہ عنایت باتو صاحب سر بود ( راہ سلوک میں نشیب و فراز بہت ہیں ۔ لہذا آخر دم تک ایک لمحہ کیلئے بھی غافل مت ہو ۔ آخر وقت تک آخر کار ایک لمحہ ایسا ہو گا کہ تم پر حق تعالی کی عنایت ہو ہی جائے گی ۔) ذرا کام میں تو لگ کر دیکھو تمہاری اس ٹوٹی پھوٹی ہوئی متاع کو کیسے قبول فرماتے ہیں ۔ اس کو بھی مولانا فرماتے ہیں : خود کہ یا بد ایں چنیں بازار کہ بیک گل می خسری گلزار را ( ایسا بازار جہاں ایک پھول کے بدلہ میں پورا کا پورا باغ مل جاتا ہو ، ہر کسی کو نہیں ملتا ) صاحبو ! جو لوگ اس آرزو میں بیٹھے ہیں کہ فراغ میسر ہو تو خدا کی یاد میں لگیں بے فکری ہو تو اس طرف متوجہ ہوں یہ غیر ممکن ہے بدون تعلق بحق کے بے فکری غیر ممکن ہونے پر ایک قصہ یاد آ گیا ۔ ایک شخص تھا اس کو خضر علیہ السلام سے ملنے کی بے حد تمنا تھی ، ایک بار ملاقات ہو گئی ، فرمایا ملاقات سے تیری کیا غرض ہے ۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت میرے لیے دعا کر دیجئے کہ میں دنیا میں بے فکر ہو کر زندگی بسر کر سکوں ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کی صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ کسی شخص کو منتخب کر کے دعا کرا لے کہ تو ایسا ہو جائے جیسا فلاں