گلدستہ سنت جلد نمبر 1 |
|
پھر وہ ڈاکٹرز کہنے لگے: اچھا ہم حضرت سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ حضرت! آج کے اس سائنسی دور میں اس چاند کو دیکھنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہم اعداد و شمار بھی کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا: بھئی! نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَاَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ کہ تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھواور جب تم چاند کودیکھو تو افطار کرو۔ اس لیے ہمارے سامنے تو ایک سیدھا سادا سا اصول ہے کہ ہم حدیث پر عمل کیا کریں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر صاحب جو قرانِ مجید کی زیادہ ہی فہم رکھتے تھے، وہ کہنے لگے کہ جناب! آپ آج کے دور میں بھی یہ بات کر رہے ہیں حالانکہ آپ نے انجینئرنگ (Engineering) بھی کی ہوئی ہے۔ کیا آج بھی انسان کو چاند دیکھنے کی ضرورت ہے؟ آج تو بندہ پہلے سے ہی کہہ سکتا ہے۔ انسان چاند پر پہنچ چکا تو کیا یہاں اس کو پہلے سے پتا نہیں چل سکتا؟ پھر حضرت جی نے اس کو تفصیل سمجھائی۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! جب چاند کے دن پورے ہو جاتے ہیں، تو ایک آخری دن ایسا آتا ہے کہ جب چاند نظر سے اوجھل ہو جاتاہے اور ان دنوں میں وہ سیاہ ہو چکا ہوتا ہے، نظر ہی نہیں آتا۔ سائنس کی ( terminology) میں اسے برتھ آف نیو مون(Birth of new Moon) کہتے ہیں۔ نئے چاند کی پیدائش کو سمجھنے میں ہمارے کئی دوست غلطی کر جاتے ہیں، وہ کریسنٹ کو نیا چاند کہہ دیتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں وہ نیا چاند نہیں۔ ہلال اور نئے چاند میں فرق ہے۔ جب چاند گھٹتے گھٹتے نظر آنا بند ہو جاتا ہے تو اس کو برتھ آف نیو مون کہتے ہیں، پھر اس کے سترہ یا بیس گھنٹوں کے بعد وہاں چاند نظر آسکتا ہے اس کو ہلال کہتے ہیں۔ ہم اس کریسنٹ کو دیکھ کر عید مناتے ہیں، ہلال کو دیکھ کر