گلدستہ سنت جلد نمبر 1 |
|
جاتا ہے، ڈاکٹراپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے، پولیس والا اپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے، جج اپنے لباس سے پہچانا جاتاہے، فوجی اپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے۔ کیا ایک مسلمان ہی رہ گیا ہے جس کے پاس کوئی لباس نہیں؟ آپ کسی بھی اسکول میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ ہراسکول والوں نے اپنا ایک یونیفارم بنایا ہوا ہے۔ اس یونیفارم میں آپ آئو گے توآپ کو انٹری ملے گی۔ اگر آپ اس یونیفارم میں نہ آئے تو آپ یہاں داخل نہیں ہوسکتے۔ اسکول والے کو اختیار ہے اور ہم اسکے اختیار کو مانتے ہیں،ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم جس اسکول میں بچے داخل کرواتے ہیں اس اسکول کے اصول کوہم مانتے ہیں کہ جی یہ ان کا یونیفارم ہے، ان کا حق ہے کہ جو یونیفارم یہ رکھیں ہم نے وہ پہنانا ہے۔ کیا نبی کریمﷺ کو آپ اتنا حق بھی نہیں دے سکتے جتنا حق آپ ایک اسکول والے کو دے رہے ہوتے ہیں۔ کیا اللہ رب العزت کے پاس یہ حق بھی نہیں کہ جس نے ہمیں یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ارے بھئی! اللہ رب العزت تو مالک الملک ہیں، ہمیں پیدا کرنے والے ہیں ،نبی ﷺ ہمارے محسنِ حقیقی ہیں انہوں نے دین کی طرف رہنمائی کی۔ تو ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کے دین کو اپنائیں اور اس لباس کو اپنائیں جو نبی ﷺ اور صحابہ کرامj کا تھا۔ ان شاء اللہ اگلے جمعے سے لباس کی تفصیلات آئیں گی۔ آج صرف یہ اس کی تمہید ہے یہ معاملہ ایسا نازک ہے کہ آج ہم اس کو با لکل (Ignore)کربیٹھے ہیں۔بچوں کے لباس سے متعلق احتیاط : یاد رکھیے کہ علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ اگر کوئی ماں باپ ایسا لباس اپنے چھوٹے بچوں کو پہنائیں جو بڑے ہو کر پہننا مکروہ ہے یا حرام ہے، تو اس کا شروع میں بھی گناہ ملے گا۔ آج ہم اپنی بچیوں کو دوپٹہ پہناتے ہی نہیں۔ جب وہ پانچ سات سال کی ہو جاتی