گلدستہ سنت جلد نمبر 1 |
|
میں ہے۔ اس کے بارے میں حضرت جی نے بڑی تفصیل سے بتایا۔ رمضان شریف کے روزوں کے بارے میں نبی ﷺ کی ایک حدیث ِ مبارکہ ہے، ارشاد فرمایا: صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَاَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ (متفق علیہ) ’’تم چاند کو دیکھو تو روزہ رکھواور جب تم چاند کودیکھو تو افطار کرو ‘‘۔ اور آج کل چاند کودیکھنے کا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں دو گروہ بن گئے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جی! جب ہم چاند دیکھیں گے تو روزہ رکھیں گے، اور چاند دیکھیں گے تو عید کریں گے۔ اور ایک نیا گروہ بھی ہے جو نئی روشنی اسکول کا پڑھا ہوا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ جی! آج انسان سائنس تک پہنچ چکا ہے، لہٰذا ہمیں پورے سال کا شیڈیول بنا لینا چاہیے کہ کس دن چاند نظر آئے گا، پھر اس کے مطابق ہمیں عمل کر لینا چاہیے۔ چنانچہ آج کے دور میں چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں یعنی آج کے دور میں سنّت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور بعض ملکوں میں اس کام پر عمل بھی شروع ہو چکا ۔رمضان شروع ہونے سے کئی دن پہلے بتا دیتے ہیں کہ فلاں دن تراویح ہو گی، اور عید سے کئی دن پہلے بتا دیتے ہیں کہ جی فلاں دن عید ہو گی۔ تو باہر ملکوں میں بعض دفعہ دو عیدیں ہوتی ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چاند کو دیکھ کر پڑھیں گے، اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی! ہم نے سائنس پڑھی ہوئی ہے تو بس (Computer Engineering)ہم نے کر لی ہے فلاں ڈگری حاصل کر لی ہے تو ہمیں اعداد و شمار سے ہی پتا چل جاتا ہے۔ ہم پہلے ہی پیشین گوئی کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت جی ایسی جگہ پر پہنچے کہ جہاںستائیس میڈیکل ڈاکٹرز موجود تھے۔ انکے درمیان حضرت جی نے بیان فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایسی مہربانی کی کہ وہ سارے ڈاکٹرز بعد میں بیعت ہو گئے، اور وہاں یہی رؤیتِ ہلال کی بحث چل پڑی۔