گلدستہ سنت جلد نمبر 1 |
|
بڑائی کو ثابت کرنا کہ جی میں نے فلاں ہال میں اتنے لوگوں میں اتنی ڈشوں کو رکھا، تو یہ قیامت کے دن کھانا کھلانا سزا اور تکلیف کا ذریعہ بن سکتا ہے۔دعوت قبول کرنے کے آداب : اب اگلی بات دعوت قبول کرنے کے آداب سے متعلق ہے۔ اگر کسی کو بلایا جائے کہ آپ ہمارے گھر آئیں تو جس کی دعوت کی جارہی ہے اس کو کیا کرنا چاہیے؟ آدابِ قبولیت میں سے ہے کہ امیر اور غریب سب کی دعوت کو قبول کر لے۔ امتیاز اور فرق اس بنیاد پر نہ کرے کہ اِس کے پاس مال ہے اور اُس کے پاس مال نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ معمولی لوگوں کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے۔ چنانچہ ایک درزی کی دعوت آپﷺ نے قبول فرمائی۔ اسی طرح جس کو مدعو کیا جا رہا ہے یاجس نے کہیں جانا ہے وہ کسی کی دعوت کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے کہ اس کے پاس ہو گا کیا، اس نے کھلاناکیا ہے، دال روٹی رکھ دے گا، سوکھی روٹی رکھ دے گا۔ بہرحال اس بنیاد پر ہر گز دعوت نہ ٹھکرائیں۔کن دعوتوں سے اجتناب کرنا چاہیے ؟ اگر کوئی دعوت رسماً کی جا رہی ہے، لحاظاً کی جارہی ہے یعنی میزبان کرنے میں اتنا خوش نہیں ہے، لیکن وہ رواج کی وجہ سے مجبور ہے کہ میں نے نہ کی تو میری ناک کٹ جائے گی، تو ایسی دعوتوں میں شرکت سے انسان کوپر ہیز ہی کرنا چاہیے کہ وہ خوشی سے نہیں کر رہا، طیبِ نفس سے نہیں کر رہا۔ وہ مجبور ہے کہ اگر میں نے یہ دعوت نہ کی تو لوگ مجھے برا بھلا کہیں گے، تو ایسی دعوتوں میں نہیں جانا چاہیے۔ اور اسی طرح اگر میزبان کی نیت احسان جتلانے کی ہو تو بھی مت جائیں۔ بعض دفعہ عادت سے، سیاق و سباق سے اندازہ ہوجاتاہے کہ کیوں بلا رہا ہے۔ اور پانچویں بات کہ اگر جس نے بلایا ہےیعنی