گلدستہ سنت جلد نمبر 1 |
|
بیوی بچے ہیں ایسا نہ ہو کہ سارے کا سارا مہمان کے سامنے اُٹھا کر رکھ دے اور گھر والے اب پریشان ہیں اور ان کا دل مہمان کے کھانے میں اٹکا ہوا ہے کہ اللہ کرے یہ کچھ بچا دے، زیادہ نہ کھائے ورنہ ہمارا کیا بنے گا۔ ہاں اگر کسی وقت قدرتاً ایسا ہو کہ مہمان اچانک آگئے ہوں اور انتظام نہیں ہو سکا تو ایسی صورت میںاگر مہمان کو ترجیح دے دیدے گا تو یہ باعثِ اجر اور باعثِ برکت ہے۔(شمائل کبریٰ،جلد1،صفحہ161) لیکن اگر آپ نے انتظام کرکے گھر میں کسی کو بلایا تو گھر والوں کا پوراپورا خیال ساتھ ساتھ رکھا جائے۔ اور کھانے کی جتنی چیزیں تیار ہوں ان سب کو مہمان کے سامنے رکھ دے تاکہ ہر قسم کا کھانا اس کے سامنے آجائے اور وہ حسبِ طلب اپنی مرضی سے خواہش کے ساتھ کھا لے، ایسا نہ ہو کہ پہلے انسان سادہ چیزیں رکھ دے اور لذیذ چیزیں بعد میں لائے تو اس کو دُکھ ہوگا، تو اچھی چیزوں کو پہلے رکھ دے یا ساتھ ساتھ رکھ دے۔ (شمائل کبریٰ،جلد1،صفحہ162)حالت کا اندازہ لگانا : ایک ادب یہ لکھا کہ مہمان سے نہ پوچھا جائے کہ جی آپ کھانا کھائیں گے؟ میں کھانا لے کر آئوں؟ بلکہ فرمایا کہ وقت کے لحاظ سے یا دوسرے اچھے ذرائع سے خود ہی اندازہ لگالیں کہ بھئی مہمان کو بھوک لگی ہوگی کہ نہیں،پھر جو میسر ہو سامنے پیش کر دے۔ (شمائل کبریٰ،جلد1،صفحہ162المیزان) دیکھیں! شریعت نے کتنی خوبصورتی بتائی کہ جو میسر ہو وہ پیش کر دے،اور دونوں طرف تکلف سے منع کیا۔ آپ پیش کر دیں، اس نے کھانا ہوگا تو کھا لے گا۔ ورنہ بہت سے آدمی پوچھنے کی وجہ سے منع ہی کر دیتے ہیں، لحاظ رکھ لیتے ہیں توبھوکے رہ جاتے ہیں۔