ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
|
اتار کر پھینک دیتے ہیں ایک منٹ پر نہیں رکھتے اور جوتا اگر نجاست میں بھر جائے تو اسے کوئی نہیں پھینکتا ـ جانتے ہیں کہ یہ تو نجس ہی ہے اگر اور نجاست میں بھر گئی تو کیا ہوا اسی طرح کافر اور مسلم کی مثال ہے کہ مومن مثل ٹوپی کے ہے کہ اگر اس میں ایک دھبہ بھی پڑ جاتا ہے تو ناگوار ہوتا ہے اور کافر مثل پاپوش کے ہے ـ کہ اگر سب بھی بھر جائے تو ناگوار نہیں ہوتا تو کیا اس سے یہ لازم آ گیا کہ جوتا کلاہ سے افضل ہے ـ ان رئیس صاحب نے بعض اہل غلو کے عذر کے طور پر کہا کہ مصیبت کے وقت عقل بھی جاتی رہتی ہے حضرت والا نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر کس کی عقل جاتی رہتی ہے جو نافرمان ہے اس کی عقل جاتی رہتی ہے بلکہ اس کی حالت راحت میں بھی ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ راحت کو اپنی ہی عقل کا ثمرہ سمجھتا ہے اور مصیبت کو اوروں کے سر تھوپتا پھرتا ہے اور مطیع مصیبت کے وقت اور بھی زیادہ عاقل اور بیدار ہو جاتا ہے کیونکہ بوجہ طاعت اور تابعداری کے حق حق تعالی اس میں عرفان کی شان پیدا کر دیتےہیں اور فورا رجوع بحق پیدا ہو جاتا ہے اس کو راحت اور مصیبت دونوں مذکر حق ہوتے ہیں ( جامع ـ جیسا کہ حضرت عارف معین الدین چشتی نے فرمایا ؎ ازیں مصائب دوراں مثال شاداں باد کہ تیر دوست بہ پہلوئے دوست می آید اور حضرت بو علی فرماتے ہیں ؎ کفر و ایمان ہر دور ابرہم بزن بعد ازیں دریاب معنی رابہ فن یعنی اے خدا کے بندے جب تو طاعت حق ہے تو تجھے راحت اور مصیبت سے بالکل قطع نظر کر لینی چاہئے ) اور حضرت والا نے یہ بھی فرمایا کہ آپ اب اس کا تجربہ کر لیں دو عالموں کے پاس جائیے ایک ان میں متدین اور متقی ہے اور ایک فقط عالم ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ متقی کو عاقل اور فہم پائیں گے اور غیر متقی کو نہایت خشک اور کور بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ایک شخص ان پڑھ اور متقی ہو اور دوسرا فقط عالم آپ اس ان پڑھ میں جو فہم دیکھیں گے وہ اس عالم میں ہرگز نہ ہوگی ـ چنانچہ حضرات صحابہ میں اکثر وہ لوگ تھے کہ پڑھنا جانتے تھے نہ لکھنا مگر جب بادشاہوں کے دربار میں دعوت اسلام دینے جاتے تھے ـ اور شاہان دنیا سے خطاب کرتے تھے بڑے بڑے بادشاہ ان کی باتیں سن کر حیران ہو جاتے تھے ـ حضرت عمر