ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
رضا و عبدیت کے قصد کی ضرورت ملفوظ 246 ـ افضل طریقہ یہ ہے کہ تم عبدیت اختیار کرو اور تقدیم و فضیلت کا وسوسہ بھی دل میں نہ لاؤ ـ بلکہ اپنے کو سب سے کم تر و بدتر سمجھو ـ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا ارشاد ہے کہ طلب جاہ عند الخلق تو مذموم ہے ہی ـ طلب جاہ عندالخالق بھی مذموم ہے ـ یعنی اس کی بھی طلب نہ کرو کہ تم خدا کے نزدیک سب سے افضل بن جاؤ ـ بلکہ محض رضا و عبدیت کا قصد کرو ـ فرمایا یہ تو حضرت حاجی صاحب کا ارشاد ہے اور اس کی میرے ذہن میں مثال آئی ہے ـ جس سے اس مضمون کی بابت پورا شرح صدر ہو گیا ہے وہ یہ ایک معشوق فرض کیجئے کہ جو دنیا بھر حسینوں سے بڑھ کر حسین و جمیل ہو اور اسکے مقابلہ ایک اس کا عاشق تصور کیجئے ـ جس سے بڑھ کر دنیا بھر میں کوئی بد شکل اور بھونڈی صورت کا نہ ہو ـ یعنی جو اندھا ، لنجا ، گنجا ، کھدرہ ، ہر طرح بھنڈی بھانت کا ناک بھی پچکی ہوئی ـ ہونٹ بھی موٹے موٹے دانت باہر کو نکلے ہوئے ـ کالا بھجنگ ، چیچک کے گہرے گہرے داغ چہرہ پر ، غرض کوئی عیب نہیں جو اس میں موجود نہ ہو ـ اب ایسا شخص اگر عمل حب کا کراتا پھرے کہ کسی طرح اس کا حسین و جمیل معشوق خود اس کے اوپر عاشق ہو جائے تو کیا لوگ اس کو پاگل نہ سمجھیں گے اور کیا اس کی اس آرزو کو خلل دماغ ہی نہ بتلائیں گے اس سے کہیں بڑھ کر تفاوت حضرت حق سبحانہ تعالی کی شان اور ایک بندہ کی شان میں ہے ـ دور حاضر میں زمانہ سلف جیسی برکت نہیں ملفوظ 247 ـ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ زمانہ سلف میں کتب زیادہ نہ تھیں لیکن علوم زیادہ تھے ـ حضور اقدسؐ کے قرب زمانہ کی وجہ سے برکت زیادہ تھی ـ خیر کا غلبہ تھا ـ حافظے قوی تھے ـ نور ایمان زیادہ بڑھا ہوا تھا ـ نیز علوم میں ترقی و برکت تقوی سے بھی ہوتی ہے اور اس زیادہ میں کتب زیادہ ہیں مگر نہ وہ علوم ہیں نہ وہ فون نہ وہ برکت ـ بلکہ اب تو اکثر جہل کا نام علم رکھ لیا گیا ہے اور جہل ہی کے سبب سے تو یہ ہو گیا ہے کہ متقدمین اور اکابر پر ہر شخص اعتراض کرنے کو تیار ہے اور بزرگان سلف پر