ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
ھو الا ذکری للعلمین جب قرآن نصیحت کی چیز ہے تو اس کی رائے دو کہ قرآن بھی اردو میں پڑھیں ایک دوسری غلطی آپ کی یہ ہے کہ قرآن میں ہے ـ ایک ذکر ہے اور ایک تذکیر ہے تذکیر کے معنی نصیحت کرنا اور ذکر کے معنی یاد کرنا اور ذکری کے معنی بھی تذکرہ کے ہے پس جو تذکیر کیلئیے ہے یعنی قرآن اس کو عربی میں پڑھتے ہو اور خطبہ اردو وہ تو نصیحت کرنے کیلئے ہے نہیں، وہاں مقصود یاد الہٰی ہے علاوہ ازیں ان کے گرو سرسید نے کہا، ناقل مولوی محمد حسین صاحب الہ آبادی ہیں- کسی نے لکھا تھا نماز میں قرآن اردو میں پڑھنا چاہئے سر سید نے رد کیا کہ نماز سے خدا کی عظمت ظاہر مقصود ہے اور عظمت جیسے عربی الفاظ سے ہوتی ہے کیونکہ اسکے الفاظ متین ہیں ایسے کسی اور زبان میں ہوتا نہیں تیسرے صحابہ کے زمانہ میں فارس وغیرہ فتح ہوئے اور صحابہ بعض فارسی بھی جانتے تھے کسی نے سوائے عربی کے اور کسی زبان میں خطبہ نہیں پڑھا ـ معقولات پڑھنے کے فوائد ملفوظ 132 - فرمایا اخیر زمانہ میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا ـ وہ معقول ہی کے بدولت ہوا انہوں نے معقول کو منقول کر کے دکھلا دیا تاکہ اغنیاء کے سمجھ میں آ جائے ـ مولانا یعقوب صاحب ؒ فرماتے تھے کہ میں جس طرح مطالعہ بخاری کو موجب اجر سمجھتا ہوں اسی طرح میر زاہد امور عامہ کو کیونکہ مقصود انکا اچھا تھا ہمارے اکابر کسی کی اہانت نہ فرماتے ملفوظ 133 - فرمایا اگر مخالفین جواب لینا چاہیں تو ایسے شخص کو متعین کریں جو مخلص ہو فہیم ہو ـ میرا اس پر اطمینان ہو کہ یہ مخلص ہے اس کو سوال سمجھا دیں اس کو جواب دوں گا اور اگر کوئی بات ماننے کی ہو مان لوں گا ـ تازہ قصہ ہے حضرت مولانا گنگوہیؒ فرماتے تھے مولوی یحی ! احمد رضا خان کی کتابیں یوں ہی ڈال دی جاتی ہیں - لاؤ ذرا سناؤ تو شاید کوئی بات قابل اتباع ہو تو مان لو ـ انہوں نے کہا حضرت اس میں تو گالیاں ہیں فرمایا دور کی گالیاں تھوڑائی لگتی ہیں ـ حضرت اب تو ایک مصیبت یہ ہو گئی کہ اگر مخالفین کی کوئی بات مان لی تو اپنے مجمع کے لوگ برا بھلا کہتے ہیں ـ بزرگان تو کفار سے بھی اگر کوئی حق بات معلوم ہو جاتی مان لیتے