ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
|
ہیں کہ میں تلوے بھی سہلایا کروں اور ہر شخص سے پوچھا کروں کہ تمہاری بی بی بھی اچھی ہے بچے اور بابا بھی اچھے ہیں ـ بھائی مجھ سے تو یہ ہو نہیں سکتا ـ ہاں ضروری بات میں خود ہی دریافت کر لیتا ہوں ـ پھر فرمایا جائیے کسی سے مشورہ لے جو آپ کی اصلی غرض ہے اس خط کے لکھنے سے اس کو ظاہر کرئیے ـ یوں میری تسلی نہ ہو گی ان کے خط سے معلوم ہوتا تھا کہ حضرت والا کے معمولات پر اور انتظام پر اعتراض تھا ـ اسی وجہ سے حضرت والا نے بار بار حاضرین کو خطاب کر کے فرمایا کہ یہ معمولات اور انتظامات میں نے اپنے مدت کے تجربہ کے بعد مقرر کیا ہے ـ اب اگر کسی شخص کو اس سے اچھا معمول اور انتظام معلوم ہو وہ کہے ـ میں بجان و دل قبول کرنے کو تیار ہوں مگر میری سمجھ میں آ جائے میں اس پر ہٹ نہیں کروں گا جو خرابیاں معلوم ہوں گی وہ ظاہر کروں گا ـ جب ان باتوں کا جواب ہو جائے ـ واللہ میں تمام انتظام بدلنے پر تیار ہوں ـ یہ کوئی شرعی مسئلہ تو ہے ہی نہیں ـ اپنی اور اپنے دوستوں کی سہولت کیلئے اور وہ بھی مدت کے تجربہ کے بعد اور احمدللہ شریعت کے مطابق دستوالعمل مقرر کر رکھا ہے ـ اب ان دونوں باتوں کا خیال رکھ کر یعنی شریعت کے موافق بھی ہو اور سہولت اور راحت بھی ہو ـ کوئی دستوالعمل بنا دو میں مان لوں گا ـ لوگ معمولات میں لائے تو دیتے نہیں اور اس کے نتائج میں اعتراض کرتے ہیں ( جامع کہتا ہے اکثر ملفوظات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت والا کو دو باتوں کی طرف زیادہ خیال رہتا ہے تتبع اور استحضار کیونکہ ان دو باتوں کے نہ ہونے سے بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں ـ چنانچہ قرآن مجید میں بہت کثرت سے سابقین کے قصے اسی واسطے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ہم ان کو یاد کر کے اور سمجھ کر ان خرابیوں سے بچیں ) آج کل کی تہذیب تعذیب ہے ملفوظ 57 ـ فرمایا کہ ایک صاحب دہلی سے تشریف لائے تھے اور دہلی کے لوگ بہت مہذب ہوتے ہیں مگر آج کل کی تہذیب تعذیب ہے وہ پہلے ایک شخص کے مرید تھے اور ان کی ہر طرح کی خدمت کرتے تھے ـ جوتے بھی اٹھاتے تھے اور پیر بھی دباتے تھے جب وہ سفر میں جاتے تو ان کے ساتھ رہتے تھے ـ غرض جو کام ایک غلام کو کرنا چاہئے وہ سب کام کرتے تھے ـ مگر پیر کا میلان چونکہ بدعت کی طرف ہو گیا تھا وہ مرید میرے پاس چلے آ ئے تھے اور میرے ساتھ