ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
|
نہیں ـ یہ اشکال مدت سے پیدا ہوا تھا ـ قاری محی الاسلام پانی پتی سے کہہ آیا تھا ـ انہوں نے تلاش کر کے جواب لکھا کہ " عیث التفع ،، میں ہے کہ یہ قرات حفصؒ نے اور شیخ سے کیا ہے یہ حفص ؒ عن عاصم نہیں بلکہ حفص ؒ عن غیر عاصم ؒ ہے اور اس کی سند نقل کر دی ایک حدیث مرفوع لکھ دی اس میں ایک راوی ضعیف ہے مگر حفص پر ایک اعتراض ہوتا ہے وہ یہ کہ عاصم کی قرات متواتر ہے یا نہ اگر متواتر ہے پھر آپ حدیث مرفوع کیوں نقل کرتے ہیں اور دوسری قرات کیوں لیتے ہیں اگر کہیں تائیدا تو ہم پوچھتے ہیں کہ حدیث مرفوع تواتر سے تو بڑھا ہوا نہیں ہے ـ عاصم کی قرات متواتر ہونا مسلم ہے قراء کا کہ ساتوں قراتیں متواتر ہیں اگر اس کو نہ مانا جائے تو قرآن پر شبہ آتا ہے ـ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفصؒ کی رائے اگر تواتر سے ثابت ہے تو تواتر ہے ـ ورنہ حدیث تو یہ خلط قراۃ ہے اور یہ قراء کے نزدیک جائز نہیں مگر میں اس مسئلہ میں ان کے متفق نہیں میرے نزدیک اس میں تفصیل ہونی چاہئے - وہ یہ کہ اگر خلط سے معنی فاسد ہو تو نا جائز ورنہ جائز ہے مثلا کسی نے سارا قرآن حفص ؒ کی روایت سے پڑھا اور مالک یوم الدین دوسری قرات سے پڑھا اس میں حرج کیا ہے یہ جائز ہے ـ اس میں معنی نہیں بگڑے اور ایک یہ کہ معنی بگڑ جائے جیسے فتقی ادم من ربہ کلمات یہ حفصؒ کی قرات ہے اور ایک قرات ہے ـ فتلقی آدم من ربہ کلمات تو اب ان دونوں قراۃ میں اگر کوئی خلط کرے مثلا پڑھے فتلقی آدم من ربہ کلمات کہ آدم کے بھی ضمہ اور کلمات کے بھی خمہ یا فتلقی آدم من ربہ کلمات کہ آدم کے میم کا فتحہ اور کلمات کے نصب تو یہ جائز نہیں جیسے تلفیق جائز نہیں ـ توضیح میں خوب واضح کر کے لکھا مثلا وضو کر کے کسی عورت کو چھو لیا اور وضو نہ کیا کہ ہم نے امام اعظم ؒ کے مذہب پر عمل کیا ـ اس میں تلفیق ہے اور اگر یہ کرے کہ ایک حادثہ میں ایک کے مذہب پر عمل کیا اور دوسرے حادثہ میں دوسرے کے مذہب پر تو اس کو جائز لکھا ـ تو جیسا تلفیق میں تفصیل ہے ـ خلط میں بھی تفصیل ہونی چاہئے ـ اس وقت اس سے بحث نہیں کہ تقلیدا کرنا نہ کرنا کیسا ہے وہ الگ مستقل مسئلہ ہے - گو اسلم طریقہ عوام کے نفع کیلئے یہی ہے کہ اگر معنی بھی نہ بگڑے تب بھی خلط نہ کرے نہ معلوم آ گے کو کیا کرے مگر یہاں گفتگو مسئلہ کی تحقیق میں ہو رہی ـ