ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
|
(آیتہ ) ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون (پ17) (اور ہم کتابوں میں لوح محفوظ کے بعد لکھ چکے ہیں کہ اس زمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے ) کے متعلق ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ آج کل یہ واقعہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ عموما زمین پر کفار وفجار کا تسلط ہے ـ سوال کرنے والے ایک مولوی صاحب تھے ـ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا قضیہ ہے ـ محصورہ یا مہملہ کہنے لگے مہملہ ہے ـ میں نے کہا کہ قضیہ مہملہ حکم میں جزیہ کے ہوتا ہے ـ کلیہ نہیں ہوتا ـ اس لئے اس آیت کا یہ مفہوم ہی نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر زمانہ میں یہی حال رہے گا کہ صالحین زمین کے وارث ہوں بلکہ بعض مرتبہ ایسا ہونا اس قضیہ کے صدق کیلئے کافی ہے ـ اب منطق کی وجہ سے اس کا جواب کس قدر سہل اور مختصر ہو گیا ـ یعنی قرآن و احادیث کے متعلق دو چیزیں ہیں ـ ایک تو ان سے مسائل کا استنباط کرنا ہے ـ دوسرے تذکرو تذکیر یعنی ترغیب و تربیب ـ تو قرآن کو جو آسان فرمایا گیا ہے وہ صرف تذکرو تذکیر کیلئے آسان فرمایا گیا ہے ـ باقی رہا استنباط مسائل کا اس کے متعلق کہیں ارشاد نہیں کہ وہ آسان ہے ـ بلکہ قرآن و حدیث سے استنباط احکام صرف محققین ہی کا کام ہے ـ ہر شخص اس کا اہل نہیں ـ پانچویں پارہ میں ارشاد ہے ـ واذا جاء ھم امر من الامن اوالخوف اذا عوابہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ) ( اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف ، تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جو ان میں ان کو ایسے امور سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالے رکھتے تو ان کو وہ حضرات پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کر لیا کرتے ہیں سب نہیں ـ پھر فرمایا کہ عوام ولقد یسرنا القرآن ( اور ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے ) پیش کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ اس کے ساتھ للذکر آیا ہے ـ للاستنباط والتحقیق تو نہیں آیا ـ احکام کا سمجھنا اور بات ہے اور ذکر و تلاوت اور بات ہر ھو سنا کے ند اند جام وسنداں باختن ملفوظات حکیم الامت ـ جلد 15 - 14