ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
|
طالب علم بہت خوش ہوئے ـ دوسرے روز کہا کہ اب بھی تحقیق کے ساتھ پڑھاؤں یا سرسری ـ طالب علموں نے کہا کہ صاحب تحقیق سے ہی پڑھائیے ـ مولوی صاحب نے کہا کہ ذرا کل کی تحقیق سنا دو کیا یاد کی ہے ـ اب سب الو سے بیٹھے دیکھ رہے ہیں ـ کسی کو کچھ بھی یاد نہیں نکلا ـ مولوی صاحب نے فرمایا کہ جب یاد نہیں کرتے تو میرا مغز کھانے سے کیا فائدہ ہوا ـ بولو اب کیسے پڑھاؤں سب نے کہا نفس مطلب ہی کافی ہے پھر مولوی صاحب نے کہا کہ بھائی ہم نے استادوں سے یوں کتابیں سمجھ کر پڑھی تھیں ـ یہ تقریریں جو تمہارے سامنے کی تھیں یہ خود کتابیں دیکھ کر سمجھ آ گئیں ـ تم بھی ایسے ہی کتابیں پوری کر لو ـ انشاءاللہ سب کچھ ہو جائے گا ـ حضرت نے فرمایا واقعی انہوں نے بہت ہی خیر خواہی کی ـ جو استادوں کو کرنی چاہئے ـ آج کل تو اپنا رنگ جمانے کو اور تقریر صاف کرنے کو یوں ہی الل ٹپ ہانکتے رہتے ہیں چاہے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے یہاں تک کہ اگر طالب علم کوئی صحیح بھی سمجھ جاتا ہے اور اپنی زبان سے اس کے خلاف نکل گیا تو چج بھرنے کیلئے اسی کو ہانکے جاتے ہیں ـ یہ بات تو میں نے مولانا محمد یعقوب صاحبؒ میں دیکھی اور آج تک کسی میں نہ دیکھی کہ جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی فورا اپنے ماتحت مدرسوں کے پاس چلے گئے اور مجمع میں جا کر کہہ دیا کہ مولانا میں اس کا مطلب نہیں سمجھا ہوں ـ مجھے سمجھا دیجئے ـ اور جب وہاں سے آئے صاف طالب علموں سے کہہ دیا کہ مولوی صاحب نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے ـ اور پھر پڑھانے لگے یہاں تک کہ اگر کوئی طالب علم بھی صحیح مطلب بیان کر دیتا تھا تو فورا مان لیتے تھے اور فرماتے کہ بھائی تم ٹھیک کہتے ہو میں غلط سمجھا تھا ـ اور کئی کئی بار فرماتے یہ ایک حالت حاوی ہو گئی اور فرمایا کہ اس شخص کا دل اللہ تعالی نے بے روگ بنایا تھا ـ پھر یہ بھی فرمایا کہ یہی حالت حضرت صاحبؒ کی تھی اپنے خدام سے مسئلہ پوچھ پوچھ کر عمل کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے تم لوگ عالم ہو دیکھو اگر میں اپنی تحقیقات میں کوئی غلطی کروں تو مجھے بتا دینا ـ ورنہ میں خدا کے سامنے کہہ دوں گا کہ میں ان لوگوں سے دریافت کرتا رہتا تھا ـ انہوں نے نہیں بتایا یہاں تک حضرت کی حالت تھی کہ اپنے واردات کو بھی خدام کے سامنے ظاہر فرما دیا کرتے تھے کہ بھائی یہ میرا وارد ہے کتابوں میں دیکھ لو شریعت کے خلاف تو نہیں ہے پھر یہ بھی فرمایا کہ جب میں کانپور میں پڑھاتا تھا اور طالب کو کتاب پر شبہے ہوتے اور مجھ سے