ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
و نا کامی کہا جاوے - کیا اگر مریض کا مرض روزانہ شئیا فشیئا کم ہوتا جاوے اور صحت شیئا فشیئنا بڑھتی جاوے تو کیا علاج کو غیر مفید کہیں گے بلکہ قاعدہ تو یہ کہ اگر تفاوت مریض کو بھی محسوس نہ ہو صرف طبیب ہی کو اپنے قواعد طیبہ کی سے معلوم ہوتا اور وہ اس کا حکم کرے تب بھی مریض حق اور کدورت اطباۓ کا قوی اندیشہ جو احیانا مفضی ہوجاتا ہے سلب نعمت کی طرف و تحسبونہ ھینا وھو عبد اللہ عظیم وہ مریض سخت غلطی کررہا ہے کہ خود اپنے مرض کے متعلق ممتنع البرء ہونے کی تشخیص کررہا ہے اور سے برح کر اس کی یہ غلطی ہو گی کہ اس کو خدا تعالیٰ نے عزم وسامان معالجہ کا دیا ہوا اور وہ اس کی ناقدری کر کے یہ تمنا کرے کہ کاش عزم ہی دل سے نکل جاتا کہ بے فکری سے دوسرے فضول یا مضر کاموں میں یکسوئی سے مشغولی ہوتی - مولانا اگر طلب اور حق تعالیٰ کے ساتھ زیادت تعلق محبوب ہے تو کیا دوسرا کام بھی اس پر ترجیح رکھتا ہے یالائمین کے کہنے سے صدمہ ہوسکتا ہے اس سے توشبہ ہوتا ہے کہ حق کی طلب ہی نہیں بلکہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مطلوب مطلقا تو مطلوب نہیں اگر وہ وعدہ وصال کرے تو کوشش کریں ورنی گولی ماریں سبحان اللہ کیسی اچھی طلب ہے - مولانا ایک قبحہ عورت بھی اپنے طالب سے اس کو گوارہ نہیں کرسکتی چہ جائے کہ حضرت حق جل شانہ اب اس پر بطور تفریح کے کہتا ہوں کہ اگر بقول آپ کے آپ کی محرومی کو تسلیم کرلیا جاوے تو اس کی وجہ اب سمجھ لیجئے کہ آپ کی طلب کی یہ شان ہے اگر یہ ہے تو اللہ کی امان اصلاح کیجئے اور عنایتیں دیکھئے آخر خط میں جو یہاں تشریف لانے کے متعلق معلق مشورہ دریافت کیا ہے سو حضرت اس کا فیصلہ میں نہیں کرسکتا - آپ خود کرسکتے ہیں کیونکہ شرط نفع مناسبت وکمال حسن ظن بحیث لایشترک فیہ احدا ہے سو اس کا اندازہ ظاہر ہے کہ میں نہیں کرسکتا پھر جو امر اس پر مبنی ہے یعنی تعیین مطلب - اس کا فیصلہ میں کیسے کرسکتا ہوں - دوسرا خط مضمون - ہادی ذماں مجدد دوران عمت فیوضکم خدام والا نے نیاز مند کے عریخہ جواب میں تحریر فرمایا تھا وہ غالبا قبل رمضان شریف بندہ کو ملا تھا - اس کو دیکھ کر بہت