ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
محبی سید محمود حسن صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈوکیٹ بہرانچ جو نہایت خوش عقیدہ مسلمان مسلمانوں کے ہمدرد اور مسلم لیگ کے ایک سر گرم رکن ہیں - مدت سے متمنی زیارت تھے - اتفاق سے لکھنو آگئے - حضرت اقدس کی تشریف اوری کا حال سنا مسجد خواص مین آکر شرف زیارت حاصل کیا ان کا حضرت والا سے تعارف بھی کرایا گیا جب وہ مجلس سے رخصت ہوئے ہیں تو عجیب کیف و بے خودی ان پر طاری تھی - مولانائے روم کا یہ شعر ان کی زبان پر تھا - یک زمانہ صحبت با اولیا بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا یہ وہ اثرات ہیں جو بیان میں نہیں آسکتے - اس عرصے میں خدا کے فضل سے حضرت والا کی طبیعت بہت سنبھل گئی تھی طاقت بھی آنے لگی تھی اور جو شکایتیں تھیں ان میں معتدبہ فائدہ ہو چلا تھا - جناب حاجی دلدار خان صاحب کی کانپور کیلئے درخواست جبان حاجی دلدار خاں صاحب رئیس و تاجر کانپور جن کا ذکر اوپر آچکا ہے حضرت اقدس کے بہت قدیم خادم ہیں کئی بار کانپور سے لکھنو آئے اور مشرف بزیارت ہوئے ان کا شروع سے اصرار تھا کہ حضرت والا کانپور میں قیام فرمائیں وہیں علاج ہو یا علاج بدستور جاری رہے مگر قیام کا نپور میں ہو لیکن جب یہ رائے قابل عمل نہ معلوم ہوئی تو جناب خان صاحب نے حضرت والا سے درخواست کی کہ حضور چند دنوں ہی کیلئے کانپور تشریف لے چلیں اور پندرہ برس کے بعد مشتاقین زیارت کو کامیان بنائیں - حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اگر حکیم صاحب خوشی سے اجازت دیں تو میں دو تین دن کے لئے چل سکتا ہوں - لیکن میں خود ان سے کوئی خواہش نہیں کروں گا - آپ خود کہیں اور خود ہی اجازت لائیں - جب اجازت آ جائے گی تب دن تاریخ مقرر ہو کر وہاں چلا جائے گا - جناب حاجی دلدار خان صاحب اپنی دھن کے پکے حضرت اقدس کے والہ وشیدا جھوائی ٹولہ جناب شفا الملک صاحب کی خدمت میں گئے اور کسی نہ کسی طرح سے ان کو راضی کر کے اجازت لے آئے - چنانچہ طے پایا کہ حضرت والا شنہ 10 ستمبر 1938 ء کو مع متلقین کے کانپور تشریف لے جائیں گے -