ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
مولوی عبد الباری صاحب ندوی مولوی عبد الحمید صاحب تحصلیدار پنشتر مولوی محمد حسن صاحب مالک انوار بکڈ پو لکھنؤ خصوصیت کیساتھ قابل ذکر ہیں - ان حضرات کے ساتھ یہ خادم وصل بھی شریک تھا غرض حضرت والا سے اس مشورے اور رائے کا اظہار نہایت ادب کے ساتھ کیا گیا حضرت والا نے کمال شفقت سے ان امور پر غور فرماتے ہوئے کہ لکھںو میں میڈیکل کالج اور طیبہ کالج موجود ہیں ڈاکٹری اور یونانی دونوں علاج آسانی سے ہوسکتے ہیں - اور اپنے خدام لکھنؤ کی وجہ ہر قسم کی آسانی وہاں ممکن ہے منظور فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ دونوں گھر میں اور دوسرے متعلقین بھی ہوں گے - تاکہ کافی آرام مل سکے - چنانچہ اس متفقہ مشورے اور منظوری کے بعد طے پایا کہ مولوی محمد حسن صاحب مالک انوار بک ڈپو لکھنو نیز یہ خادم دونوں لکھنو جائیں ڈاکڑوں اور طبیبوں سے مشورہ کریں بالخصوص اطباء سے دریافت کر کے مطلع کریں کہ وہ بلد پریشر سے واقف ہیں یا نہیں اور اس کا علاج بھی کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ قیام گاہ کا انتخاب قیام کے لئے دو اصحاب نے اپنی دراخواستیں پیش کیں کہ میرے غریب خانے کو یہ شرف عطا فرمایا جائے ان میں ایک مولوی عبد الباری صاحب ندوی دوسرے مولوی محمد حسن صاحب مالک انوار بکڈ پو لکھنؤ تھے - حضرت والا نے مناسب یہی سمجھا کہ شہر میں قیام کیا جائے اور اس کے لئے مولوی محمد حسن صاحب کا مکان موزوں تھا مولوی عبد الباری صاحب کا مکان شہر سے باہر اور دور تھا اور علاج کے لئے وہ تمام آسانیاں جو شہر میں حاصل ہوسکتی تھیں شہر کے باہر ممکن نہیں - ان امور کے طے ہوجانے کے بعد مولوی محمد حسن صاحب اور یہ رقم الحروف 5 اگست 1938 ء کو بروز جمعہ تین بجے دن کی گاڑی سے لکھنو جانے کے لئے سہارنپور روانہ ہوگئے - مولوی عبدالحمید صاحب پنشنر تحصلیدار بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہی واپس ہوئے - 6 اگست 1938 ء کی صبح کو ہم لوگ لکھنؤ پہنچے اور اپنے اپنے مکانوں پر اسباب رکھ کر میں اور مولوی محمد حسن صاحب سب سے پہلے جہوائی ٹولہ جناب شفاء الملک حکیم عبد الحمید صاحب سے مشورہ کرنے گئے - حکیم صاحب موصوف بالطبع بیحد خلیق نیک مزاج نہایت ہمدردی ذی مروت اور ہر ایک کی خدمت کرنے پر ہر وقت آمادہ رہنے والی ہستیوں میں سے ہیں اور حضرت والا سے تو ان کو