ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
اعمال عادیہ بھی ترک کرے ایسی بیعت شرعا بالکل ناجائز اور حرام ہے کیونکہ وہ اتکال منہی عنہ ہے اس سے اجتناب فرض ہے ورنہ مرید تو ڈوبے ہی تھے پیر صاحب بھی پاتال پہنچ گئے اور مفسدین کی فہرست میں نام لکھا گیا - جس کی قرآن شریف میں صاف ممانعت ہے ( ولا تعثو فی الارض مفسدین ) اور یہ شرعی قاعدہ ہے کہ اگر کوئی امر مطلوب شرعی نہیں اور درجہ استحباب میں ہے اور اس کے استعمال سے مفسدہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا ترک کردینا فرض ہے اور اگر مطلوب شرعی ہے تو مفسدہ کی اصلاح فرض ہے - میں خود کچھ عرض کرنا نہیں چاہتا - ناظرین کرام خود اس قسم کی بیعت کو اس معیار پر جانچ لیں میرے خیال میں مرید ہونے والوں میں سے جو ملا جانچ پڑتال جھٹ منگنی پٹ نکاح بیعت ہوجاتے ہیں اور پیر بھی جانچ نہیں کرتے - فی صدی دس بھی ایسے نہیں نکلیں گے جو بیعت کی غرض وغایت اپنی دینی اصلاح اور تزود آخرت سمجھتے ہوں و نیز اس قسم کی بیعت کرنے والئ پیر فیصد ایک بھی اس غرض وغایت کا نہیں ملے گا اس کی تو واحد غرض حب جاہ و ملا ہے - اسی لئے جو سامنے آیا اسے پھانسا ( اعاذنا اللہ منھم ) بلکہ اکثر و بیشتر مریدوں کی یہ غرض ہوتی ہے بیعت ہو کر بلا کسی عمل کے بلیات دنیا و عقبیٰ سے نجات پا جائیں جو مفسدہ فی الدین ہے اور سراسر تکال ممنوع ہے - اصول بیان اس قیام کے زمانہ میں وعظ کے لئے دعوتوں پر دعوتیں آنے لگیں مگر اکثر جگہ حضرت مجدد الملۃ نے انکار فرمادیا - اور جن دعوتوں سے انکار فرمایا اور جن وجوہ سے انکار فرمایا باوجود سابقہ واقفیت کے ہم لوگ بھی بے خبر تھے اور آخر میں داعیین میں وہی وجوہ مانعہ پائے گئے جن کی بنا پر انکار فرمایا گیا تھا - یہ آپ کا بین کشف یا وہ فراست کا حصہ تھا جو ایسے بزرگوں کو انبیاء سے ملا ہے - دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میں کیا کروں میرا قلب ہی متوجہ نہیں ہوتا - حیدر آباد میں صرف تین جگہ وعظ فرمایا اور ہر جگہ ایک ہی آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی مگر ہر جگہ مضامین اور مقاصد اور جہات مختلف تھے - ایک وعظ تو مولانا عبد الحئی صاحب ابقاہ اللہ کے زمانہ ( زیادہ تر مولوی صاحب کی ان ہی اہلیہ صاحبہ کی تحریک پر جنہوں نے اس سفر کی