ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
نے انکار فرمادیا اور نہایت شفقت سے فرمایا کہ سفر میں بیعت نہیں کرتا - کیونکہ سفر میں میں بھی مہذب بنا رہتا ہوں اور جو صاحب میرے پاس تشریف لاتے ہیں وہ بھی مہذب ہو کر ملتے ہیں کسی کی اصلیت کا پتہ نہیں چلتا - البتہ آپ آکر میرے پاس تھانہ بھون میں رہیں - میرے اندرونی بیرونی حالات آپ کو پوست کندہ معلوم ہوجائیں - میری عام معاشرت کا آپ کو علم ہوجائے اور مجھے بھی آپ کے اخلاق - استعداد - عادات اور بورے حالات کا علم ہوجائے گا - اس حالت میں اگر فریقین کی رضامندی ہوئی تو بیعت بھی ہوجائے گی اور کچھ تصوف اور سلوک کا دارو مدار بیعت پر نہیں وہ تو کام کرنے پر اور شیخ کی اطاعت پر ہے جیسا شیخ کہے بلا چون وچرا اس کا حکم تسلیم کرے ہاں اگر صاحب خبرت ہے اور شیخ کا حکم صریح شریعت کے خلاف ہے تو کبھی اطاعت نہ کرے مگر گستاخی نہ کرے ادب سے عزر کر دے وہ بھی جبکہ شیخ صاحب کمال ہو رونہ ایسے شیخ ہی کو خیر باد کہے - ارشاد کی بے وقعتی عزیزو ! واقع میں حضرت حکیم الامت مجدد الملۃ کا فرمان عین شریعت کے مطابق ہے - یہ بھی کوئی دینداری اور دیانت ہے کہ اپنی شوکت اور عظمت بڑھانے کی غرض سے جو آیا اسے پھانس لیا جائے جو عمل کرے پیر صاحب ضامن ہیں - فقط بیعت کی اور ایک پرچہ نجات ہاتھ میں پکڑوا دیا جب کبھی پیر صاھب تشریف لائے تو جلو میں مریدوں کا ایک جم غفیر ساتھ ساتھ ہے - پیر صاحب ہیں کہ شہر بشہر در بدر مریدوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں جو ملا پیر صاحب نے اپنے جال میں پھانس لیا - 10 ربیع الثانی 42 ھ کو حیدر آباد سے سکندر آباد آرہا تھا ایک نوجوان شخص میرے درجہ میں سوار تھا - خدا جانے اس کو کیا سوجھی کہ اس نے میرے سامنے اپنی بیوی کی بے اعتنائی اور اپنے سسرال والوں کی روک رکھنے کی شکایت کی اور رونے لگا - اس نے اپنی بے تابی اور بیوی کے ساتھ عشق و محبت کے واقعات بھی بیان کئے اور مجھ سے طالب دعا ہوا - مجھے بھی اس کے بیان سے بہت ہی دل میں رقت ہوئی میں نے اس کو تسلی دلا سادیا کہ خدا کی قدرت سے بعید نہیں ہے پھر ملاپ ہوجاوے گا - اسی اثناء میں اس نے بیان کیا کہ اسی غرض سے حضرت شاہ صاحب جو