ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
جب ایسا اختلاف ہے تو اس صورت میں ایسی پالیسی اختیار کرنا جس سے مسلمان معصیت میں مبتلا ہوسکیں نہ ان کے لئے جائز نہ میرے لئے جائز - مدت دراز رک صبر کے ساتھ سکوت کیا مگر میں نے جب دیکھا کہ اس سکوت کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور دوسرے مسلک حق ہونے کا بھی ان کو احتمال ہورہا ہے لہذا میں نے قطع تعلق کا ایک اعلان لکھ کر ان کو بھی مطلع کردیا اور اس کو شائع بھی کردیا مگر اتنا ادب کیا کہ اپنی ذات کی طرف نقص کو منسوب کیا یہ سب اسی لئے کہ لوگوں کو اس شبہ سے غلط فہمی نہ ہو - اگر اب ان سوالوں کا جواب حسب مصلحت ہوتو وہی غلط فہمی کا خطرہ پھر عود کر آئے گا - البتہ اس کا بے حد اہتمام ہے کہ اپنی زبان کسی گستاخی سے ملوث نہیں کرتا اور قلب کو ان کی بدنیتی و خود غرضی کے احتمال سے ملوث نہیں کرتا مگر صرف حسن نیت معصیت سے مانع نہیں ہوتی آپ کو مخلص سمجھ کر اتنا لکھ دیا اگر اس میں کوئی شرعی گنجائش ہو تو بے تکلف ظاہر فرمادیجئے میں سمجھنے کے بعد اتباع کے لئے تیارہوں - سوال ( 94 ) کاش اللہ تعالیٰ حضرت ہی کی دعا وصدقہ سے اپنی محبت سے ہی اس ویرانہ کو آباد فرمادیتا - جواب - فرمایا تو دیا اب بقای کی دعا کی ضرورت ہے - بقیہ سوال - ورنہ خود اپنے پاس تو نہ اخلاص کا سرمایہ ہے نہ کوئی پیش کرنے کے لائق عمل جواب - اس طریق میں اعتقاد نفی ہی دلیل سے ثبوت کی - نوٹ - حضرت مولانا اسحاق صاحب رحمتہ اللہ علیہ بردوانی موٹر کی ذد میں آکر جاں بحق ہوگئے تھے اس حادثہ کے بعد ان کے ایک عزیز کا یہ خط آیا جو ذیل میں درج ہے - سوال ( 95 ) مودبانہ عرض ہے کہ مولانا مرحوم کی زبان مبارک میں ہمیشہ ورد قرآن جاری رہتا تھا - خاص کر جب چلتے تھے اور پھر نماز ہی کے لئے تشریف لے جاتے تے اب بنا پر فرشتے ان کی حفاظت ضرور کرتے تھے پھر اس سانحہ جان لیوا کی کیا وجہ ہے - حضور اگر کچھ توجیہ بیان فرمادیں تو دل کو کچھ اطمینان ہو - جواب - وہ مقبول و محبوب تھے حفاظت تو سب کی کی جاتی ہے خواہ مومن بھی نہ ہو آیت لہ معقبات سورہ رعد کی اس عموم میں لض ہے تو یہ سوال ہر شخص کے اعتبار سے ہوسکتا ہے اس مین مقبولین کی کیا تخصیص ہے اور جواب یہ ہے کہ ہر بلا سے حفاظت نہیں کی جاتی بلکہ جس سے حکم