ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
سمجھا جاتا ہے اس کے خلاد میں نے خود تحریر تجربہ کرلیا ہے - خلاصہ اپنی ساری عمر کے تجربہ کایہ ہے کہ درجہ احسان کا حصول اگر ممکن ہے تو عنقا صفت ضرور ہے یا تشخصہ ہماری ذات میں اس کی صلاحیت ہی نہیں ہے یا اب تک مجھ کو کسی روحانی حقیقی طبیب کی قدم بوسی حاصل نہیں ہوئی ہے اور ظاہر شق ثانی ہے ہے مگر زیادہ پریشانی اس کی ہے کہ کاش ایسا خیال ہی ہمارے دل سے نکل جاتا تاکہ اطمینان کے ساتھ اور کاموں میں لگ جاتا اس کا دھیان قلب سے جانا بھی نہیں اس لئے میں خوب جانتا ہوں کہ بہت سا کام نقصان دہ ہوتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ بندہ بیکار اور فضول شخص ہے اس کہنے کا صدمہ مجھ کو نہ ہوتا اگر اپنا مقصود حاصل ہوتا یا اس کی کچھ توقع قریب بھی ہوتی - بہر کیف جناب والا کی خدمت میں عریضہ ہذا لکھنے کی فقط یہی غرض ہے کہ ہماری حالت سے آپ خوب واقف ہیں - صاف صاف بلا تواضع وانکسارو عاجزی و تکلف اولا تو یہ فرمادیں کہ آیا ہم میں صلاحیت حصول مقصود ہے یا نہیں اور اگر ہے تو قریب یا بعید اور دوم یہ کہ 4 مئی سے تین ماہ تک مدرسہ عالیہ میں تعطیل ہے اگر آپ کے نزدیک آپ کی خدمت میں جانا ہمارے اپنے مقصود کے لئے نافع ہوتو قدمبوسی کے لئے تیار ہوں تو یہ فرما دیں کہ کب حاضر ہوں اور اگر خدا نخواستہ آپ کی خدمت میں کامیابی کی توقع نہ ہوتو آپ لوجہ اللہ اس کی تعین فرمادیں کہ کس کے پاس جاؤں - جواب - مولانا السلام علیکم ورحمتہ اللہ - سفر حرمین مبارک اور مقبول ہو - ذالک فضل ا اللہ یؤتیہ من یشاء حصول وعدم حصول درجہ احسان کے متعلق جس قدر اپ نے تحریر فرمایا ہے سب کی بنا ایک مقدمہ کا دعویٰ ہے وہ یہ کہ اس میں سے کوئی حصہ آپ کو حاصل نہیں ہوا بس اسی میں کلام ہے کیا قبل طلب ق قبل سعی و قبل عمل و قبل حضور خدمات حضرات اہل اللہ کی جو حالت تھی بالکل اب بھی وہی حالت ہے کچھ بھی تفاوت نہیں ہوا یا کچھ تفاوت ہے - غالبا اگر آپ تامل وتذکرہ و موازنہ حالتین کے بعد جواب دیں گے تو یہ ہرگز نہ کہیں گے کہ تفاوت نہیں - ضرور تفاوت کے قالم ہوں گے گو اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیں کہ تفاوت تو ہے مگر ایسا ہے کہ اس کو اعتداد واستقرار نہیں کبھی حضور ہے کبھی غیبت کبھی قوت ہے کبھی ضعف کبھی کچھ کیفیت ہوتی ہے کبھی نہیں تو یہ مسلم کیا جاویگا مگر اس کی کوئی سجہ سمجھ میں آتی کہ اس کو محرومی