ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
ہی میں صحت کاملہ عطا فرمائی - اور اس سخت مرض اور خطرے سے نجات بخشی - جس کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہو رہا تھا - حضرت والا بار بار فرماتے ہیں میں نے مجبوریوں کی وجہ سے اہل لکھنؤ سے بے اعتنائی کی ملاقات میں پابندیاں عائد کردیں ظاہرا سختی کا برتاؤ کیا مصافحے تک کی اجازت نہیں دی اس پر بھی ان حضرات نے جس محبت اور خلوص کا برتاؤ میرے ساتھ کیا ہے اس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا - اور اب اکثر لکھنؤ یاد آتا ہے اگر ناسازی مزاج کی حالت نہ ہوتی اور حکماء و ڈاکٹر صاحبان سخت ممانعت نہ کرتے تو حضرت والا کا کریمانہ اخلاق کسی طرھ مانع نہ ہوتا - ایسے اہم امور ہیں جن کی وجہ سے لکھنؤ کا سفر خاص اہمیت رکھتا ہے - اور مدت دراز تک آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا - مرض کا حملہ واقعہ یہ ہے کہ شنبہ 11 جون 1938 ء کا دن گزرنے کے بعد 12 جون 1938 ء کی شب میں دو بجے کے وقت حضرت اقدس پیشاب کے لئے اٹھے استنجا پاک کر کے کھڑے ہونے کا قصد فرمایا کہ ایک دم سے دماغ خالی معلوم ہوا اس کے بعد بہوش ہوگئے - اب جب ہوش آیا تو اپنے کو زمین پر پڑا پایا اس لئے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ کھڑے کھڑے گرے یا بیٹھے بیٹھے بہیوش ہوگئے - گرنے کی وجہ سے داہنی پسلی سر اور کہنی میں چوٹین آگئیں جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ غابا کھڑا ہونے کے بعد گر کر بہیوش ہوئے کیونکہ چوٹیں سخت تھیں - پھر اجابت معلوم ہوئی اب ہوش آگیا تھا لیکن نقاہت بے حد تھی بمشکل تمام خود اٹھ کر بیعت الخلاء تشریف لے گئے ابھی تک کسی کو اطلاع نہیں - دوسروں کی تکلیف کا خیال حالت مرض میں اور حضرت والا کا معمول بھی ہے کہ جب تک خود کوئی کام کرسکیں یا انتہائی مجبوری نہ ہو اس وقت تک کسی کو مطلع نہیں فرماتے - دوسرے کی تکلیف کا بے حد خیال اور لحاظ رہتا ہے اور یہی وجہ تھی جو اس وقت بھی مانع ہوئی حضرت والا نے بیت الخلاء جانے کا قصد تو فرمایا لیکن برابر خوف رہا کہ کہیں اندر گر نہ جاؤں مگر خدا کا شکر ہے کہ جب تک فراغت نہ ہوگی چکر تک محسوس نہیں ہوا - رفع حاجت کے بعد بیت الخلاء سے باہر قدم رکھتے ہی اس قدر