ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
اس سفر کےمضفی رکھنے کا خاص اہتمام فرما لیا تھا - صرف عزیز احمد جلال الدین صاحب کو لاہور اور ان کی وساطت سے جناب مولوی محمد حسن صاحب کو جو حضرت کے مجاز طریقت بھی ہیں اور مدرسہ نعمانیہ واقع شیخ خیر الدین صدر مدرس بھی مطلع کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی اشاعتدان شاہ کی بتاکید ممانعت فرمادی گئی تھی مگر عادۃ اللہ یونہی جاری ہے - کہ حق سبحانہ تعالیٰ جن اولیاء اللہ کے سپرد خلق کی خدمت فرمادیتے ہیں اور جن کی زیارت کے انوار سے ہزاروں دلوں کو منور اور جن کے دریائے فیض سے ہر جگہ نہریں جاری فرما کر اطراف عالم کو سیراب فرمانا چاہتے ہیں ان کی نقل وحرکت کو اپنی مرضی کاص کے ماتحت رکھ کر عجب و شہرت پسندی سے محفوظ رکھتے ہوئے غیبی طور پر اظہار فرمادیتے ہیں - کیونکہ ایسے اولیاء اللہ کا وجود با وجود خلق خدا کے لئے باعث برکت اور سرپا رحمت ہوتا ہے اور ارحم الراحمین کسی طرح خلقت کو اپنی رحمتوں سے محروم رکھنا نہیں چاہتے - چنانچہ حضرت والا اخفائے سفر کا اہتمام فرماتے ہوئے مع اپنے رفقاء کے جب سہارنپور سے روانہ ہوئے تو با وجود مولوی ظہور الحسن صاحب کے روکنے کے مولوی جمیل الحسن صاحب طالب علم نے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اوپنے والد ماجد حافظ عنایت علی صاحب کو لودھانیہ تار دے دیا کہ حضرت والا اس گاڑی سے لاہور تشریف لئے جاہے ہیں - لودھیانہ اسٹیشن چھ بجے شام کو جب لودھانیہ اسٹیشن پر گڑی پہنچی تو دکھا کہ حافظ عنایت علی صاح مع چند دیگر رفقائ کے گاڑی تلاش کر رہے ہیں حتیٰ کہ حضرت والا قری پہنچ گئے اور مشر بزریارت ہوئے - سب کو کو بہت تعجب ہوا دریافت کرنے پر مولوی جمیل الحسن صاحب کے تار کا حال معلوم ہوا - حافظ صاحب نے فرمایا کہا بھی تار پہنچا ہے چونکہ تار پر پورا اطمینان نہیں تھا اس لئے میں نے اس خبر کی اشاعت نہیں کی - بس چار پانچ آدمی آگئے یہاں گاڑی معمول سے زیادہ ٹھری - تھوڑی دیر میں دوسرے ذبوں سے نکل نکل کر مسافر آنا شروع ہوئے - معلوم ہوا کہ ان سے کسی ہمدر نے کہہ دیا کہ حضرت والا مدظلہم العالیٰ اس گاڑی سے سفر فرمارہے ہیں - یہ لوگ سر ہند کے عرس سے واپس آرہے تھے حضرت والا ہر ایک سے دریافت فرماتے رہے کہ کہاں جاؤ گے ! سب لوگ مختلف مقامات پر جانے والے تھے ان میں دو ایک ایسے بھی نکلے جو خاص لاہور جارہے تھے -