ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
حاضر ہوئے - غرض آج کے آنے والوں اور پہلے سے آئے ہوئے اصحاب کی وجہ سے خانقاہ شریف میں ایک اچھاخاصہ مجمع ہوگیا - اس وقت تک جناب حکیم محمد مصطفیٰ صاحب میرٹھی کا علاج ہو رہا تھا اور جناب حکیم صاحب بڑے خلوص و محبت سے مصروف علاج تھے لیکن جس قدر فائدہ حکیم صاحب کے علاج سے ہوچکا تھا اس کے آگے نہیں بڑھتا تھا - حکیم صاحب برابر کوشاں تھے مگر صحت میں کافی ترقی نہیں پاتے تھے - بلڈ پریشر کو نہیں جانتے تھے اور نہ اس کے علاج سے واقف تھے - علااج کے لئے تھانہ بھون سے باہر لے جانے کی تجویز پہلے ہی سے حضرت والا کے اعزہ کا خیال تھا کہ تھانہ بھون سے کسی دوسری جگہ لے جاکر تشخیص اور علاج ہونا چاہئے کوئی سہارنپور لے جانے کی رائے دیتا تھا اور حکیم صاھب نیز بہت سے لوگ میرٹھ لے جانے کے لئے عرض کر رہے تھے - حضرت والا کی طبیعت کا رجحان بھی میرٹھ کی طرف تھا مگر خدام نے جب کل حالات معلوم کر لئے اور میٹھ یا سہارنپور لے جانے کے ارادے سے واقف بھی ہوگئے تو سب نے یکجا ہو کر ہر پہلو پر نظر کر کے تبادلہ خیال کیا بالاتفاق یہ طے ہوا کہ میرٹھ یا سہارنپور لے جانا مناسب نہیں ہے وہاں نہ کوئی معروف و مشہور ڈاکٹر ہے نہ خاص صاحب کمال طبیب اس کے بعد دوسرے مقامات کے نام لئے گئے - لکھنؤ کا انتخاب آخر متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ لکھنؤ کے جانا چاہئے وہاں میڈیکل کالج بھی ہے ہر طرح کے ماہر اور کامل فن ڈاکٹر موجود ہیں ہر قسم کے آلات دستیاب ہوسکتے ہیں اطباۓ کا لکھنؤ مخزن ہے نہایت نامور حازق اور استاد فن اطباء وہاں ہیں وہ لوگ بلڈپریشر اور اس کے علاج سے بھی واقف ہیں - اس کے علاوہ وہاں ایسے جان نثار خدام بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف حضرت والا ہو ہی نہیں سکتی - اس باہمی تجویز کے بعد سب اہل شوریٰ حضرت اقدس کی خدمت عالی مین حاضر ہوئے جن میں جناب مولوی شبیر علی صاحب جناب مولوی محمد عیسیٰ صاحب جناب خواجہ عزیز الحسن صاحب مجزوب جناب مولوی محمد حسن صاحب امر تسری جناب