ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
اصول علاج ہمیشہ سے حضرت والا کے معمولات میں ہے کہ جس طبیب کا علاج شروع فرماتے ہیں اور جب تک اس کا علاج جاری رہتا ہے نہ دوسرے سے مشورہ لیتے ہیں اور نہ کسی اور کا نسخہ استعمال میں آتا ہے اسی کی ہدایت کی پابندی کی جاتی ہے اور اسی کی تجویز پر عمل ہوتا ہے - نہ کبھی خود ذرادخل دیتے ہیں نہ کوئی اور دخل دے سکتا ہے چنانچہ جب جناب شفاء الملک صاحب نے نسخہ تحریر فرمایا اس وقت میرے سامنے جناب شفاء الملک صاحب نے حضرت والا کے حضور میں نسخہ پیش کر کے عرض کیا کہ جناب بھی اس کو ملا حظہ فرمالیں - حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ میں کبھی معالج کی رائے میں دخل نہیں دیتا - اور نہ کسی اور کو دخل دینے دیتا ہوں ہاں اگر ایسے ہی آپ کا حکم ہے تو میں آنکھ بند کر کے نسخہ دیکھ لیتا ہوں غرض جناب شفاء الملک صاحب کی ہر ہدایت پر نہایت سختی کے ساتھ برابر عمل ہوتا رہا اور اس وقت تک جاری ہے جو دوا تجویز کی گئی اور جو دوا بتائی گئی وہی استعمال میں رہی اور آج تک ہے - کبھی جناب شفاء الملک صاحب کی رائے کے بغیر اپنی یا کسی اور کی رائے سے کبھی کوئی در و بدل نہیں فرمایا - حکیم محمد مصطفیٰ صاحب میرٹھی کے خط پر اظہار خیال یہاں تک کہ جناب حکیم محمد مصطفیٰ صاحب میرٹھی نے ( جو ہمیشہ سے حضرت والا کے معالج رہے ہیں اور لکھنؤ آنے سے پہلے انہیں کا علاج رہا ) حکیم سیمع اللہ خان صاحب کو لکھنؤ خط لکھا کہ جناب شفاء الملک صاحب کی تشخیص و تجویز مجھے لکھ کر بھیج دیجئے - وہ خط حضرت والا کے ملا حظے سے گزرا - حضرت نہایت ناراض ہوئے اور حکیم سمیع اللہ خان صاحب سے فرمایا کہ ان کو لکھ دیجئے کہ یہ امر میرے مزاج کے بالکل خلاف ہے - آپ کا پوچھنا گویا میرا ہی پوچھنا ہے اس پر جناب حکیم محمد مصطفیٰ صاحب نے بہت معافی مانگی اس کے بعد ابھی رمضان المبارک سے پہلے حضرت والا کی لکھنؤ سے واپسی کے بعد جناب حکیم صاحب میرٹھ سے تھانہ بھون حاضر ہوئے کئی روز تک نبض وقارورہ دیکھتے رہے اور لکھنؤ کی تشخیص و تجویز کو معلوم کرنا چاہا - حضرت والا اپنے کمال اخلاق اور ان کے اخلاق و محبت و ہمدردی کی وجہ