ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
رزائل کے خانے معرا تھے اور وہ بھی ایسے جو کثیر الوقوع جس میں نہ کسی تہیہ کی ضرورت نہ سامان اور تیاری کی حاجت کی بیٹھے بیٹھے بین یدیہ و رجلیہ انسان اس کا مرتکب ہوسکتا ہے - مثلا غیبت کسی کی یا کسی پر طنز و تعریض وغیرہ ( الحمد اللہ علی ذلک وو فقنا اللہ لذلک ) تربیت میں سنت کا رنگ آپ کی تربیت و تعلیم محض سنت کے مطابق ہوتی ہے - جس طرح حضور سرو کائنات صلی اللہ علیہ وسلم صرف صحبت و مکالمات اور مفاوضات میں صحابہ کو فیض پہنچایا کرتے تھے - بعینہ ویسا ہی آپ کے یہاں ہوتا ہے - عام مشائخ کی طرح نہ مروجہ طریقہ پر حلقہ ذکر ہے نہ توجہ ہے - نہ کوئی ایسی صورت ہے کہ جس سے عام حالات سے کوئی امتیازی ہیئت پیدا ہو - بلکہ مجلس صحبت گرم ہوتی ہے اس میں ہر طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اسی میں توجہ اسی میں القاء نسبت اسی میں فیض یا ظاہری صورت تو غیر ممتاز - مگر قلب خاص امتیاز کے ساتھ جملہ قلوب حاضرہ کا متجسس ہوتا ہے - ہر شخص کو اس کے ظرف کے موافق فیضان ہوتا رہتا ہے - چنانچہ جب مجلس ے اٹھتے ہیں تو ہر شخص اپنی بساط کے موافق مالا مال جاتا ہے - شہادت تجدید : میرا یہ مقصود نہیں کہ مروجہ حلقات مشائخ یا ان کے طرق تعلیم معاذ اللہ ناجائز ہیں اس لئے ہر شیخ فن سلوک میں مجتہد ہوتا ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خطاب بھی کرجائے تب بھی وہ آئمہ شرائع کی طرح مستحق ایک اجر کا ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ حضرت حکیم الامۃ کی یہ امتیازی شان ہے کہ حتی المقدور اتباع سنت کو ہاتھ سے نہیں دیتے اور سنت کی محبت مین اپنے اجتہاد کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے - یہ ایک سنت تھی کہ ایک زمانہ سے مردہ ہوچکی تھی - مشائخ قد مارضوان اللہ علیہ اجمعین نے تو خاص بیماروں کے لئے خاص وقت پر یہ طریقے اختیار کئے تھے مگر اس کے بعد وہ سلاسل کے لئے شعار اور بطور امتیاز کے سمجھے گئے اور بلا امتیاز حالت مریض ہر ایک کو ایک ہی نسخہ استعمال کرایا جانے لگا - الا ماشاء اللہ اس مردہ کے زندہ کرنے کا شرف آپ ہی کو حاصل ہوا - اسی واسطے آپ کے حق میں میری شہادت ہے کہ آپ اس زمانہ کے مجدد برحق ہیں یہاں موقع نہیں رونہ میں تفصیل سے ان سنن کا ذکر کرتا جو مردہ ہوچکی تھیں بلکہ نسیا منسیا ہو